تری بے وفائی کے بعد بھی مرے دل کا پیار نہیں گیا

تری بے وفائی کے بعد بھی مرے دل کا پیار نہیں گیا
شب انتظار گزر گئی غم انتظار نہیں گیا


میں سمندروں کا نصیب تھا مرا ڈوبنا بھی عجیب تھا
مرے دل نے مجھ سے بہت کہا میں اتر کے پار نہیں گیا


تو مرا شریک سفر نہیں مرے دل سے دور مگر نہیں
تری مملکت نہ رہی مگر ترا اختیار نہیں گیا


اسے اتنا سوچا ہے روز و شب کہ سوال دید رہا نہ اب
وہ گلی بھی زیر طواف ہے جہاں ایک بار نہیں گیا


کبھی کوئی وعدہ وفا نہ کر یوں ہی روز روز بہانہ کر
تو فریب دے کے چلا گیا ترا اعتبار نہیں گیا


مجھے اس کے ظرف کی کیا خبر کہیں اور جا کے ہنسے اگر
مرے حال دل پہ تو روئے بن کوئی غم گسار نہیں گیا


اسے کیا خبر کہ شکستگی ہے جنوں کی منزل آگہی
جو متاع شیشۂ دل لیے سر کوئے یار نہیں گیا


مری زندگی مری شاعری کسی غم کی دین ہے جعفریؔ
دل و جاں کا قرض چکا دیا میں گناہ گار نہیں گیا