ترے عکس سے مری ذات میں ہے لطیف ہجر و وصال سا

ترے عکس سے مری ذات میں ہے لطیف ہجر و وصال سا
دم صبح کوئی امنگ سی سر شام کوئی ملال سا


تری بوئے خوش کے سرور سے تری روشنی کے وفور سے
مرے نین گہرے سیاہ سے مرا رنگ سرخ گلال سا


مگر آگہی کی طلب سے ہے ہمہ وقت نوک زبان پر
کوئی لفظ لفظ گمان سا کوئی حرف حرف سوال سا


جسے زندگی کے رفو لباس کے سارے بخیے قبول ہیں
اسے پھر لبادہ قضا کا بھی ہوا نرم ریشوں کی شال سا


چلو ڈھونڈیں شہر نمود میں کوئی شخص پیکر زندگی
کوئی دوستی کی نظیر سا کوئی دلبری کی مثال سا


مرا انتقام بھی حرف ہیں مرا اہتمام بھی حرف ہیں
کبھی گیت گیت ترنگ سی کبھی شعر شعر وبال سا