ترا لطف آتش شوق کو حد زندگی سے بڑھا نہ دے

ترا لطف آتش شوق کو حد زندگی سے بڑھا نہ دے
کہیں بجھ نہ جائے چراغ ہی اسے دیکھ اتنی ہوا نہ دے


ترا غم ہے دولت دل تری اسے آنسوؤں میں لٹا نہ دے
وہی آہ نقد حیات ہے جسے لب پہ لا کے گنوا نہ دے


مری زندگی کی حقیقتوں کو نہ پونچھ اور میں کیا کہوں
مرا دوست آج وہی ہے جو مجھے زندگی کی دعا نہ دے


یہی زندگی نے سبق دیا کہ کبھی فریب کرم نہ کھا
یہ امید رکھ نہ کسی سے تو کہ مٹا سکے تو مٹا نہ دے


مجھ غم ہی دے نہ خوشی سہی نہ کرم سہی تو ستم سہی
مگر اتنا کم بھی کرم نہ ہو کہ ترا ستم بھی مزا نہ دے


مرے دل کی خود یہ مجال تھی کہ وہ شام غم کو سحر کرے
تری یاد آ کے گھڑی گھڑی اگر آنسوؤں کو ہنسا نہ دے


ترے دل پہ حق ہے جہاں کا بھی یہ فرار عشق روا نہیں
غم دوست خوب ہے جب تلک غم زندگی کو بھلا نہ دے


وہ خدائے حسن ہی کیوں نہ ہو کوئی شے ہے غیرت عشق بھی
جو تری صدا پہ کھلے نہ در وہ کھلے بھی جب تو صدا نہ دے


مرے دشمنوں کے لبوں پہ تھی جو ہنسی وہ ملاؔ اب اڑ چلی
انہیں ڈر ہے اب یہی غم مرا مری زندگی کو بنا نہ دے