ترا چہرہ ترا حسن وفا کچھ اور کہتا ہے

ترا چہرہ ترا حسن وفا کچھ اور کہتا ہے
مگر شیریں لبوں کا ذائقہ کچھ اور کہتا ہے


تجھے سب شاعروں نے اپنے اپنے رنگ میں ڈھالا
مگر میری غزل کا آئنہ کچھ اور کہتا ہے


عجب سی کشمکش میں ہوں زوال عشق ہے لازم
صنم کچھ اور کہتا ہے خدا کچھ اور کہتا ہے


تری قربت میں چاہت کی کشش دیکھی نہیں لیکن
ہمارے درمیاں کا فاصلہ کچھ اور کہتا ہے


اندھیروں سے نکل چل جگنوؤں سے دوستی کر لیں
ہوا کچھ اور کہتی ہے دیا کچھ اور کہتا ہے


ہماری راہ تھی راہ وفا اشراقؔ اب لیکن
ہمارے قافلے کا رہنما کچھ اور کہتا ہے