ٹیپو
اٹھا وہ خاک سرنگا پٹم سے مرد جری
بدیسیوں کی حکومت تھی لرزہ بر اندام
وہ اولین مجاہد کہ جس نے فرمایا
رہے گا ہند نہ ہرگز فرنگیوں کا غلام
پڑھائی اہل وطن کو نماز آزادی
سکھائے جس نے ہمیں اس کے سب سجود و قیام
بنائے طرز نوی جس نے کی تھی مستحکم
بدل کے رکھ دیا جس نے قدامتوں کا نظام
فلاح قوم کا جس نے کیا بلند علم
رہی تھی جس کو مقدم ہمیشہ خیر انام
وہ جاں فروش دلارا دکن کے حیدر کا
جو اپنی ذات سے خود تھا مجاہدوں کا امام
کہا یہ جس نے کہ اہل وطن کا ہے یہ وطن
نہ غاصبوں کا نہ اغیار کا ہے کوئی مقام
گواہ عظمت ٹیپو ہے رود کاویری
یہیں ہوا تھا نبرد آزما وہ خوش فرجام
شہید کا اسے دیتی ہے مرتبہ تاریخ
بہ کیش صدق و صفا ہے یہی بڑا انعام
ازل سے بات چلی آئی ہے زمانے میں
جو نیک بندے ہیں ہوتا ہے ان کا نیک انجام
منار مسجد جامع سے دے رہا ہوں صدا
دکن کی خاک کے ذرو تمہیں ہزار سلام