ٹھہرا ہے قریب جان آ کر
ٹھہرا ہے قریب جان آ کر
جانے کا نہیں یہ دھیان آ کر
آئینہ لیا تو تیری صورت
ہنسنے لگی درمیان آ کر
ٹپکے نہ یہ اشک چشم غم سے
جائے نہ یہ میہمان آ کر
پلٹی جو ہوا گئے دنوں کی
دہرا گئی داستان آ کر
قدموں سے لپٹ گئے ہیں رستے
آتا ہی نہیں مکان آ کر
جا پہنچی زمین اس سے ملنے
ملتا نہ تھا آسمان آ کر