سراب شب بھی ہے خواب شکستہ پا بھی ہے

سراب شب بھی ہے خواب شکستہ پا بھی ہے
کہ نیند مانگتے رہنے کی کچھ سزا بھی ہے


تمام عمر چنوں گی میں ریزہ ریزہ تجھے
پس غبار نگہ ایک آئینہ بھی ہے


سپرد رقص کیا میں نے ہر تمنا کو
لہو کے شور کی اب کوئی انتہا بھی ہے


میں کیوں نہ ایک ہی قطرہ سے سیر ہو جاؤں
کسی کی پیاس کو دریا کبھی ملا بھی ہے


میان راہ کڑی دھوپ میں نہ چھوڑ مجھے
بتا تو دے کہ کہیں گھر کا راستہ بھی ہے


میں اس چراغ کو دشمن کی صف میں کیوں رکھوں
یہ میرے نام پہ کچھ دیر کو جلا بھی ہے


ہزار لذت خاموش کے نشے میں ہو دل
سخن کے نام پہ کچھ حرف مانگتا بھی ہے


مرے خلاف گواہوں کی کچھ کمی بھی نہیں
مگر ہر ایک مرے حق میں بولتا بھی ہے


سمٹ کے رہ گئے دیوار شہر خوف میں لوگ
کسے خبر ہو کہ زندہ کوئی بچا بھی ہے


ہجوم تشنہ لباں کا سراغ دے مجھ کو
وراثتوں میں مری دشت کربلا بھی ہے