تھا کہاں لکھنا اسے لیکن کہاں پر لکھ دیا

تھا کہاں لکھنا اسے لیکن کہاں پر لکھ دیا
میں زمیں کا حرف مجھ کو آسماں پر لکھ دیا


جس کے پڑھنے سے رہی قاصر بھنور کی آنکھ بھی
کون جانے کیا ہوا نے بادباں پر لکھ دیا


کچھ تو کر دریا مرے ان کو ڈبو یا پار کر
کشتیوں نے اپنا دکھ آب رواں پر لکھ دیا


بیٹھ کر اب زرد پتوں کے ورق پلٹا کرو
تبصرہ لکھنے کو موسم نے خزاں پر لکھ دیا


حشر میں خانہ خرابی کو ٹھکانہ چاہیئے
اس نے میرا نام بھی اپنے مکاں پر لکھ دیا


اور با معنی ہوا تشکیک کا پچھلا نصاب
کیا کہوں اہل یقیں نے کیا گماں پر لکھ دیا


تم اسے کہہ لو حساب دوستاں در دل فضاؔ
ہم نے اپنا نفع بھی لوح زیاں پر لکھ دیا