تھا جو میرے ذوق کا سامان آدھا رہ گیا
تھا جو میرے ذوق کا سامان آدھا رہ گیا
بحر دل میں عشق کا طوفان آدھا رہ گیا
میں ادھر بے چین ہوں اور وہ ادھر ہے مضطرب
داستان عشق کا عنوان آدھا رہ گیا
چند لمحے بعد ہی آ کر وہ رخصت ہو گیا
اس سے ملنے کا تھا جو ارمان آدھا رہ گیا
اس کی تصویر تصور ہے نظر کے سامنے
خانۂ دل میں جو تھا مہمان آدھا رہ گیا
تشنۂ تکمیل ہے میرے سوالوں کا جواب
میں سمجھتا تھا جسے آسان آدھا رہ گیا
ابن آدم کی کبھی پوری نہیں ہوتی ہوس
وہ سمجھتا ہے ابھی سامان آدھا رہ گیا
علم ظاہر اور باطن لازم و ملزوم ہیں
جو نہ سمجھے اس کو وہ انسان آدھا رہ گیا
اپنی اپنی سرحدوں سے ہیں سبھی نا مطمئن
چین آدھا رہ گیا جاپان آدھا رہ گیا
سب کی ڈفلی ہے الگ اور سب کا اپنا راگ ہے
شیخ آدھا رہ گیا اور خان آدھا رہ گیا
ناقدوں کے درمیاں ہے ان دنوں موضوع بحث
میرؔ اور غالبؔ کا جو دیوان آدھا رہ گیا
شعر لکھ سکتا نہیں جو کر رہا ہے اس کی شرح
شعر فہمی کا تھا جو رجحان آدھا رہ گیا
کہہ رہا ہے جس کی نظروں میں برابر ہیں سبھی
اس امیر شہر کا فرمان آدھا رہ گیا
ہے کبھی نیمے دروں وہ اور کبھی نیمے بروں
آدمی کا آج کل ایمان آدھا رہ گیا
اک جھلک دکھلا کے اپنی جو کبھی لوٹا نہیں
اس کے برقیؔ ہجر میں بے جان آدھا رہ گیا