عصرِ حاضر کا فکری چیلنج اور تعلیماتِ نبویﷺ

 

عصرِ حاضر کیا ہے؟ اس سوال پر متعدد پہلوئوں سے غور کیا جاسکتا ہے۔ ایک اعتبار سے عصرِ حاضر ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی کا دور ہے اور یہی اِس عہد کی اصل امتیازی خصوصیت ہے۔ بعض تجزیہ کرنے والے ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے چند اہم عناصر کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً الیکٹرانک ٹیکنالوجی، ابلاغ کی تکنیک، خلائی ٹیکنالوجی، نیوکلیئر ٹیکنالوجی، ذرائع آمد و رفت، کمپیوٹر و انٹرنیٹ اور جدید اسلحہ جات۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹیکنالوجی کی یہ غیرمعمولی ترقی اپنے ساتھ کوئی چیلنج بھی لائی ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے ساتھ تین بڑے چیلنج سامنے آئے ہیں:

(الف)ٹیکنالوجی کے ضرورت سے زیادہ استعمال کا چیلنج ،جسے ٹیکنالوجی کا ’’نشہ‘‘ یا ’’لت‘‘ (Addiction) کہا جاسکتا ہے۔ (ب)ٹیکنالوجی کی بنا پر طاقتور اور کمزور کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا چیلنج اور (ج)ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے قدرتی نظام کے توازن میں خلل اور آلودگی کا مسئلہ۔

’’عصرِ حاضر کیا ہے؟‘‘  اس سوال کے ایک جواب کا اوپر تذکرہ کیا گیا یعنی عصرِ حاضر ’’ٹیکنالوجی کا دور‘‘ ہے۔ اس سوال کا ایک اور جواب یہ ہے کہ عصرِ حاضر گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ اس دور میں دنیا سکڑ کر ایک بستی بن گئی ہے۔ چنانچہ ملکوں و قوموں کے درمیان سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ایک دوسرے سے اُن کا ارتباط اس درجے بڑھ چکا ہے کہ کوئی ملک عالمی تبدیلیوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ گلوبلائزیشن کے اس مظہر نے بھی نئے چیلنج پیدا کیے ہیں۔ ان میں تین چیلنج بنیادی ہیں:

(الف)دنیا بہت عرصے تک الگ الگ سیاسی یونٹوں میں منقسم نہیں رہ سکتی۔ اُس کو ایک عالمی ریاست بننا ہو گا۔ اس عالمی ریاست کی فکری بنیادیں کیا ہوں گی؟ یہ ایک حل طلب سوال ہے۔ (ب)جب تک یہ عالمی ریاست وجود میں نہ آئے، اُس وقت تک ایک صاف ستھرے اور مبنی بر انصاف بین الاقوامی قانون کی ضرورت ہے جو ملکوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا احترام سکھائے۔ یہ قانون کیسے مرتب کیا جائے اور اس کے لیے درکار قوتِ نافذہ کہاں سے آئے گی؟ (ج)قدرتی ماحول کے توازن کو کیسے بحال کیا جائے اور توازن کی بحالی کے اس مشکل کام میں روئے زمین کی تمام قوموں اور ملکوں کا تعاون کیسے حاصل کیا جائے؟

عصرِ حاضر کی حقیقی ماہیت:

’’عصرِ حاضر کیا ہے؟ اس سوال کے دو مقبول ترین جوابات آپ کے سامنے آئے یعنی ایک جواب یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی اصل خاصیت ٹیکنالوجی کا غیرمعمولی ’’عروج‘‘ ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی اصل روح ’’گلوبلائزیشن‘‘ ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں جوابات جزوی طور پر صحیح ہیں۔ یعنی یہ عصرِ حاضر کے ظاہری پہلوئوں میں سے دو نمایاں ترین پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن عصرِ حاضر کی اصل حقیقت دریافت کرنے کے لیے ہمیں محض اس کے ظاہر کا تجزیہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اُن افکار و خیالات کا گہرا جائزہ لینا چاہیے جن سے عصرِ حاضر کی تشکیل ہوئی ہے۔ زندگی، تمدن اور تہذیب کا ظاہری ڈھانچا بلاشبہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس ظاہری ڈھانچے کی حیثیت صرف قالب کی ہے، اس قالب کے اندر جو روح موجود ہے، وہ افکار و خیالات کی روح ہے۔ چنانچہ عصرِ حاضر کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ وہ تصورات کون سے ہیں جن کی بنیاد پر عصرِ حاضر کی غالب تہذیب۔۔۔ مغربی تہذیب۔۔۔ کی تعمیر ہوئی ہے۔

مغربی تہذیب کے افکار و نظریات بہت سے ہیں۔ فلسفے میں ہیومانزم (Humanism) اور وجودیت (Existentialism) اجتماعیات میں سیکولرزم اور جمہوریت، اخلاقیات میں افادیت (Utilitarianism) اور اضافیت (Relativism)، معاشیات میں آاد مسابقت (Free Competition)، تصورِ کائنات میں مادیت (Materialism) اور بخت و اتفاق (Chance) اور جانداروں کی دنیا میں نظریۂ ارتقا (Evolution) اس تہذیب کے مشہور نظریات ہیں۔ اس رجحان کو سادہ الفاظ میں ’’غیب کا انکار‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

’’غیب کے انکار‘‘ کے رجحان کی اتباع میں جو نقطۂ نظر وجود میں آیا ہے، اُسے آج کل ’’سائنسی نقطۂ نظر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق ’’حقیقت صرف وہ ہے، جسے انسان اپنے حواس کی مدد سے اپنی گرفت میں لے سکے، جو دیکھی جاسکے، سنی جاسکے اور جس کی پیمائش ہو سکے‘‘۔ اگر کوئی چیز ایسی ہے جو اس قسم کی نہیں ہے تو پھر وہ حقیقت نہیں ہے، محض واہم ہے۔ سائنسی نقطۂ نظر (Scientific World View) کے مطابق معلومات کی فراہمی کے لیے ایک سائنسی طریقِ کار (Scientific Method) بھی تجویز کیا گیا ہے۔ وہ طریقِ کار یہ ہے کہ انسان اپنے حواس کی مدد سے معلومات اکٹھی کرے اور پھر اپنی استدلالی قوتوں سے کام لے کر ان معلومات کو منظم انداز میں مرتب کرے۔ اس طریقے کے سوا کسی اور منہج کو مستند تسلیم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ’’عصرِ حاضر کیا ہے؟‘‘ اس سوال کا حقیقی جواب یہ ہے کہ ’’عصرِ حاضر اجتماعی زندگی کی اُس شکل سے عبارت ہے جو غیب کے انکار کی بنیاد پر قائم ہے‘‘۔

یہ ایک پہلو سے منفی جواب ہے۔ اگر اس سوال کا مثبت جواب دیا جائے تو وہ یہ ہو گا کہ ’’عصرِ حاضر۔ سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق انسانی زندگی کی تنظیم کا نام ہے‘‘۔

ظاہر ہے کہ غیب کے انکار کا یہ اساسی رجحان۔۔۔ جو عصرِ حاضر کی روح ہے۔ انبیائی تعلیمات کے لیے ایک چیلنج ہے، اس لیے کہ انبیائی تعلیم کی اساس ہی یہ ہے کہ ’’امورِ غیب پر ایمان‘‘ لایا جائے۔ نبی کریمﷺ نے جو تعلیمات اپنے قول و فعل سے پیش کی ہیں، اُن میں ہمیں عصرِ حاضر کے اس چیلنج کا جواب ملتا ہے۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس چیلنج کو قبول کریں اور انسانوں کو اس مقبولِ عام گمراہی سے نجات دلائیں۔ ’’غیب کے انکار‘‘ کے اس غلط رجحان کا مقابلہ عقلی و استدلالی سطح پر بھی کیا جانا چاہیے اور نفسیاتی و جذباتی سطح پر بھی۔ لیکن اس سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ’’غیب‘‘ سے مراد کیا ہے؟

غیب کا مفہوم:

سورۂ فاتحہ کے فوراً بعد قرآن مجید میں اُن لوگوں کا تعارف کرایا گیا ہے جو اس کتاب سے ہدایت پا سکتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ہدایت یابی کے لیے ضروری شرائط بیان کر دی گئی ہیں:

’’الف۔لام۔میم۔ یہ اﷲ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے اُن پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہی (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، اُن سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (البقرۃ:۱۔۵)

ان آیات میں ہدایت پانے کے لیے چھ شرائط کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تقویٰ، غیب پر ایمان، اِقامتِ صلوٰۃ، اﷲ کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنا، اﷲ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان اور آخرت پر یقین۔ ان میں دوسری شرط ’’غیب پر ایمان‘‘ ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ آیاتِ بالا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غیب سے مْراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات و صفات، ملائکہ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ۔ اِن حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اْٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سْونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جا سکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔‘‘(تفہیم القرآن، سورۂ بقرۃ، حاشیہ۴)

 

انکارِ غیب کی دلیل:

غیب کا مفہوم جان لینے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’غیب‘‘ موجود نہیں ہے، اُن کے اس دعوے کے دلائل کیا ہیں؟

اس سوال کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ منکرینِ غیب کے پاس اپنے موقف کے لیے ’’دلائل‘‘ موجود نہیں بلکہ صرف ایک ’’دلیل‘‘ ہے اور وہ یہ کہ ’’جن امور کو غیب کہا جاتا ہے (مثلاً ملائکہ، وحی، جنت، دوزخ وغیرہ) وہ چونکہ ہمیں نظر نہیں آتے، اس لیے موجود نہیں ہیں‘‘۔

لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا مندرجہ بالا بیان فی الواقع کوئی دلیل ہے یا محض ایک دعویٰ ہے جو خود دلیل کا محتاج ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہی کہ سائنسی نقطۂ نظر کے قائلین خود ایسی بہت سی چیزوں کے قائل ہیں جو انسانی حواس کے ذریعے کیے گئے مشاہدے کی گرفت میں نہیں آتیں لیکن اُن کے وجود کو محض عقلی استدلال کی وجہ سے مان لیا جاتا ہے۔ مثلاً:

(الف) سائنسی نقطۂ نظر کے حاملین عام طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ کائنات کے مختلف اجزا کے درمیان کشش اور انجذاب جیسی طاقتیں موجود ہیں جو ان اجزا کو باہم وابستہ رکھتی ہیں اور کائنات میں ہونے والی تبدیلیوں کا سبب ہیں۔ لیکن ان طاقتوں کا براہِ راست مشاہدہ کسی انسان نے نہیں کیا۔ محض ان کے مظاہر اور اثرات کو دیکھا ہے۔

(ب) سب جانتے ہیں کہ کائنات میں کچھ اشیا جاندار ہیں اور کچھ غیرجاندار۔ لیکن جان یا زندگی کا براہِ راست مشاہدہ کسی نے نہیں کیا۔ جب جان نکل جاتی ہے تو ایک ذی روح مر جاتا ہے اور پھر اس کے بچے کھچے ڈھانچے کی خصوصیات وہی ہوتی ہیں جو عام بے جان اشیا کی ہوا کرتی ہیں۔ جس طرح ہم پانی کی بوتل سے پانی نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں، اُسی طرح کسی ذی روح کے مرتے وقت اس کے جسم سے جان نکلتے ہوئے نہیں دیکھتے، لیکن اس عدم مشاہدہ کے باوجود نہ کوئی ’’جان‘‘ کا انکار کر سکتا ہے نہ ’’جان کے نکلنے‘‘ کا۔

(ج) عموماً اہلِ سائنس اس کے قائل ہیں کہ کائنات قوانین کی پابند ہے، لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں قانونِ فطرت بہرحال کوئی ایسی چیز نہیں جو قابلِ مشاہدہ ہو۔ صرف قوانین کے مظاہر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انکارِ غیب کا موقف درحقیقت بہت کمزور ہے اور اس کے حق میں کوئی واقعی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس لیے نبیﷺ نے جو کلامِ الٰہی انسانوں کے سامنے پیش کیا اس میں انکارِ غیب کی اس دلیل (یعنی ’’دلیل عدمِ مشاہدہ‘‘) کی کسی تردید کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی، البتہ اس امر کی طرف اشارہ کر دیا گیا کہ انسانوں کا موت پر قابو نہ پا سکنا عالمِ غیب کی موجودگی پر صاف دلالت کرتا ہے۔

’’اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اس خیال میں سچے ہو ، تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے ،اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے ؟ اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے۔‘‘ (الواقعہ:۸۳۔۸۷)

انکارِ غیب کے موقف کی کمزوری سامنے آچکی ہے، اس کے پہلو بہ پہلو غیب پر ایمان کے مثبت دلائل بھی موجود ہیں۔ نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی کتاب۔۔۔ قرآن مجید۔۔۔ ایمان بالغیب کے لیے مثبت بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ انبیاء پر اعتماد ایسی ہی مثبت بنیاد ہے۔

انبیاء پر اعتماد:

انسان ہمیشہ امورِ غیب کے باری میں جاننے کا خواہش مند رہا ہے، وہ جاننا چاہتا ہے کہ خالقِ کائنات کون ہے۔ اُس کی صفات کیا ہیں۔ اُس کا اپنے بندوں سے کیا تعلق ہے؟ ملائکہ کون ہیں اور ان کی خصوصیات کیا ہیں۔ وحی کی کیفیت کیا ہے؟ عالمِ آخرت میں انسان کو کن حالات سے سابقہ پیش آنے والا ہے؟ ان سوالات کا اور اس طرح کے دیگر سوالات کا جواب ہمیں انبیائی تعلیمات میں ملتا ہے۔ لیکن انبیائی تعلیمات پر غور سے پہلے ایک اور بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ انسان نبیوں کی بات اطمینان کے ساتھ کیوں مان لے؟

قرآنِ مجید نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سچے اور دیانت دار انسان ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے، اس لیے اُن کی دوسری باتوں کی طرح اُن کا دعویٰ نبوت بھی سچا ہے۔ اُن کی صداقت و دیانت پر اُن کی قبل از نبوت کی پوری زندگی گواہ ہوتی ہے۔

’’جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اِس کے بجائے کوئی اور قرآن لائو یا ا س میں کچھ ترمیم کرو۔ اے نبی! ان سے کہو میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اِس میں کوئی تغیّر و تبدّل کر لوں، میں تو بس اْس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ اور کہو اگر اللہ کی مشیّت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سْناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گْزار چْکا ہوں ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اْس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسْوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقینا مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔‘‘(یونس:۱۵۔۱۷)

ایک شخص یہ بات سن کر کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے ایک شخص صادق و امانت دار ہو، لیکن اس کی عقل متاثر ہو گئی ہو اور وہ ناسمجھی کی باتیں کرنے لگا ہو۔ قرآن مجید نے اپنے مخاطبین کو اس امکان پر بھی غور کرنے کی دعوت دی ہے اور پوری قوت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ مدعی نبوتﷺ انتہائی غافل و دانا انسان ہیں۔ ان کے اندر بے عقلی یا ناسمجھی کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔ آخر نبوت سے تھوڑی ہی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیر کعبہ کے بعد حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائل قریش باہم لڑ پڑے تھے تو تم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکَم تسلیم کیا تھا اور انہوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا جس پر تم سب مطمئن ہو گئے تھے۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہو چکا ہے، اب کیا بات ایسی ہو گئی کہ تم اسے مجنون کہنے لگے؟ہٹ دھرمی کی تو بات ہی دوسری ہے، مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟

اجر کا طالب نہ ہونا:

یہ بات ہمارے سامنے آچکی ہے کہ انبیاء کا صادق و امانت دار ہونا اور عقل و دانائی میں کامل ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ چنانچہ امورِ غیب کے بارے میں اُن کی بیان کردہ خبروں پر شک کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، البتہ ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اﷲ کے یہ نیک بندے شروع میں بلاشبہ بے داغ کردار کے مالک تھے، لیکن ہو سکتا ہے بعد میں وہ اپنی کسی غرض کی بنا پر کچھ باتیں گھڑ کر لے آئے ہوں اور انہیں حقائق کے طور پر پیش کرنے لگے ہوں۔

قرآن مجید ہمیں اس امکان پر بھی غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خوب باریک بینی کے ساتھ انبیاء کی سیرت کا جائزہ لو۔ تم کسی ایسی ’’غرض‘‘ کی نشاندہی نہیں کر سکتے جس کے لیے انبیاء کام کر رہے ہوں۔ وہ انسانوں سے کسی بھی قسم کے ’’اجر‘‘ کے طالب نہیں ہوتے:

’’اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو ، تمہارا کوئی خدا اْس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں۔ اے برادرانِ قوم! اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔‘‘ (ہود:۵۰۔۵۱)

’’اے نبی! کیا آپ ان سے کچھ مانگ رہے ہیں؟ آپ کے لیے تو آپ کے ربّ کا دیا ہوا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ اور (واقعہ یہ ہے کہ) آپ تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں۔ (المومنون:۷۲۔۷۳)

’’اے نبی! تم کو تو ہم نے بس ایک بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے ربّ کا راستہ اختیار کر لے۔‘‘(الفرقان:۵۶۔۵۷)

اس طرح قرآن اپنی حجت تمام کرتا ہے۔ جو نیک نفس انسان سچے اور امانت دار بھی ہوں، عقل اور دانائی میں بھی کامل ہوں اور اپنی کوئی ذاتی غرض بھی نہ رکھتے ہوں اُن کی باتوں پر یقین نہ کرنے کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ چنانچہ انبیاء امورِ غیب کے بارے میں جو کچھ بتاتے ہیں اُس پر ایمان لانا عقل کا عین تقاضا ہے۔

بعض حقائقِ غیب کا مشاہدہ:

مندرجہ بالا دلائل کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اﷲ تعالیٰ انبیاء کرام کو بعض حقائقِ غیب کا مشاہدہ بھی کرا دیتا تھا تاکہ وہ پورے اطمینان کے ساتھ لوگوں کو امورِ غیب کے بارے میں بتا سکیں اور اُن سے ایمان بالغیب کا مطالبہ کر سکیں۔ چنانچہ قرآن ایک موقع کا تذکرہ کرتا ہے جب نبیﷺ نے جبریل فرشتے کو دیکھا اور انہوں نے اﷲ کی وحی آپ تک پہنچائی۔

’’یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے جو بڑا صاحبِ حکمت ہے۔ وہ سامنے آ کھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا، پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہو گیا، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے پر وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی۔ نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؟ اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔ اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا۔ نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘ (النجم:۴۔۱۸)

واقعہ معراج کے موقع پر نبیﷺ نے بہت سے امورِ غیب کا مشاہدہ کیا:

’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سْننے اور دیکھنے والا۔‘‘ (بنی اسرائیل:۱)

ایمان بالغیب کی دعوت:

عصرِ حاضر کے چیلنج کی نوعیت سمجھ لینے کے بعد اُمتِ مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سارے انسانوں کو عموماً اور اہلِ مغرب کو خصوصاً ’’غیب پر ایمان لانے‘‘ کی دعوت دے۔ یہ واقعہ ہے کہ غیب پر ایمان سے جو چیز اہلِ مغرب کو روکتی ہے وہ کوئی عقلی استدلال نہیں ہے بلکہ ’’مذہب کا خوف‘‘ ہے۔ ان کے نزدیک مذہب نام ہے اندھ وشواس کا، بے بنیاد عقائد کا، اوہام و خرافات کا، نامعقول رسوم و رواج کا، پجاریوں اور پروہتوں کی انسانوں پر حکومت کا اور غیرمنصفانہ قوانین کا۔ اگر ایسے ’’مذہب‘‘ سے وہ نہ بھاگیں تو کیا کریں۔

ایسے حالات میں اہلِ مغرب کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ اسلام اُس قسم کا ’’مذہب‘‘ نہیں ہے، جس سے وہ خوف زدہ ہیں۔ اُس نے جن باتوں پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ انتہائی معقول ہیں اور انسانی فطرت کو اپیل کرتی ہیں:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔‘‘ (النساء:۱۳۶)

اسلام میں کسی مذہبی اجارہ دار طبقے (Clergy) کی کوئی گنجائش نہیں جو اﷲ کی ہدایت کی من مانی تشریح کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔

’’ان میں ایک گروہ امیّوں کا ہے، جو کتاب کا علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزووں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم وگمان پر چلے جا رہے ہیں۔ پس ہلاکت اور تباہی ہے اْن لوگوں کیلے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں۔ اْن کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔‘‘ (البقرۃ:۷۸۔۷۹)

آخر میں اہلِ مغرب کو یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ نبی کریمﷺ کی آمد کی ایک غرض یہ ہے کہ دنیا سے تمام نامعقول رسوم و رواج کا اور غیرمنصفانہ قوانین کا خاتمہ کر دیا جائے:

’’(آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبرنبی امّی (ﷺ) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اْس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (الاعراف:۱۵۷)

مضمون نگار ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ دہلی کے مدیر اور معروف دانشور ہیں۔