تیرے سوا کسی کی تمنا کروں گا میں
تیرے سوا کسی کی تمنا کروں گا میں
ایسا کبھی ہوا ہے جو ایسا کروں گا میں
گو غم عزیز ہے مجھے تیرے فراق کا
پھر بھی اس امتحان کا شکوہ کروں گا میں
آنکھوں کو اشک و خوں بھی فراہم کروں گا میں
دل کے لیے بھی درد مہیا کروں گا میں
راحت بھی رنج، رنج بھی راحت ہو جب تو پھر
کیا اعتبار خواہش دنیا کروں گا میں
رکھا ہے کیا جہان میں یہ اور بات ہے
یہ اور بات ہے کہ تقاضا کروں گا میں
یہ رہ گزر کہ جائے قیام و قرار تھی
یعنی اب اس گلی سے بھی گزرا کروں گا میں
یعنی کچھ اس طرح کہ تجھے بھی خبر نہ ہو
اس احتیاط سے تجھے دیکھا کروں گا میں
ہے دیکھنے کی چیز تو یہ التفات بھی
دیکھو گے تم گریز بھی ایسا کروں گا میں
حیران و دل شکستہ ہوں اس حال زار پر
کب جانتا تھا اپنا تماشا کروں گا میں
ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے
اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں