شام اپنی بے مزا جاتی ہے روز
شام اپنی بے مزا جاتی ہے روز
اور ستم یہ ہے کہ آ جاتی ہے روز
کوئی دن آساں نہیں جاتا مرا
کوئی مشکل آزما جاتی ہے روز
مجھ سے پوچھے کوئی کیا ہے زندگی
میرے سر سے یہ بلا جاتی ہے روز
جانے کس کی سرخ روئی کے لیے
خوں میں یہ دھرتی نہا جاتی ہے روز
گیت گاتے ہیں پرندے صبح و شام
یا سماعت چہچہا جاتی ہے روز
دیکھنے والوں کو اجملؔ زندگی
رنگ کتنے ہی دکھا جاتی ہے روز