طریق عشق میں اندیشۂ زیاں نہ رہا
طریق عشق میں اندیشۂ زیاں نہ رہا
اسی کا نام رہا جس کا کچھ نشاں نہ رہا
کہیں گلوں میں کہیں مہر و ماہ و انجم میں
نظر نظر کے لئے وہ کہاں کہاں نہ رہا
لئے تھے بڑھ کے قدم جس کے قرب منزل نے
وہ کارواں نہ رہا میر کارواں نہ رہا
جنہوں نے خون سے کی آبیاریٔ گلشن
انہیں کا صحن گلستاں میں آشیاں نہ رہا
یہ سانحہ ہے کہ راہیں تو ہیں نئی لیکن
کسی اصول پہ دستور کارواں نہ رہا
نظر نواز تھا جب منظر گل و غنچہ
چمن میں اگلی بہاروں کا وہ سماں نہ رہا
وہ دن بھی تھے کہ تعلق تھا ہم نواؤں سے
یہ وقت بھی ہے کہ اب کوئی ہم زباں نہ رہا
ہمیں بھی اب تو یہ حرف غلط سا لگتا ہے
ہمارا نام کہ جو زیب داستاں نہ رہا
دیا تھا نام جسے راہ و رسم الفت کا
رشیؔ وہ مشغلۂ سعیٔ رائیگاں نہ رہا