دل کی روداد نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے

دل کی روداد نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے
درد مندوں کی خموشی میں زباں ہوتی ہے


خود فراموش نہ جب تک ہو کوئی کیا سمجھے
بے نشانی بھی محبت میں نشاں ہوتی ہے


نقش امید ہیں بن بن کے بگڑتے کیا کیا
زندگی رقص گہہ ریگ رواں ہوتی ہے


جو ترے حسن نظر گیر سے شاداب نہیں
ان بہاروں کے مقدر میں خزاں ہوتی ہے


وہ برا وقت محبت میں نہ دیکھے کوئی
جب محبت بھی طبیعت پہ گراں ہوتی ہے


یوں بھی ہوتی ہے ترے غم کی نوازش اکثر
لب پہ ہوتی ہے ہنسی دل میں فغاں ہوتی ہے


جاں نثاری سے ہے توقیر محبت لیکن
دیکھنا یہ ہے کہ تکمیل کہاں ہوتی ہے


ہم وہاں ہو کے بھی موجود کہاں ہوتے ہیں
ہم نشینوں میں تری بات جہاں ہوتی ہے


چونک اٹھتا ہے غم ہجر کا احساس رشیؔ
ان کے آنے پہ بھی تسکین کہاں ہوتی ہے