تقدیر میں اضافۂ سوز وفا ہوا
تقدیر میں اضافۂ سوز وفا ہوا
دل میں جو تم نے آگ لگا دی تو کیا ہوا
کہتے ہیں جس کو موت ہے اک بے خودی کی نیند
اس کو فنا کہاں ہے جو تجھ پر فنا ہوا
اے خادمان حسن یہ کیا انتظام ہے
اب تک چراغ طور پڑا ہے بجھا ہوا
ہستی و نیستی کی حدیں دور رہ گئیں
یہ آ گیا کہاں میں تجھے ڈھونڈھتا ہوا
منہ سے دعا نکل ہی گئی وقت قتل بھی
کہنا یہ تھا کہ حق محبت ادا ہوا
بحث نیاز و ناز تھی کل بزم حسن میں
سیمابؔ کچھ خبر نہیں کیا فیصلہ ہوا