تقدیر کب تلک یہ رکھے گی ڈھلان میں
تقدیر کب تلک یہ رکھے گی ڈھلان میں
تدبیر لے اڑے گی مجھے آسمان میں
اب اور صبر کا تجھے کیا چاہئے خراج
میں نے تو اپنی جان بھی دے دی لگان میں
اس کا بھی آج بیٹا ہوا موت کا شکار
جو بیچتا تھا نقلی دوائیں دکان میں
تفریق کا مریض تعصب کا ہو شکار
ایسا نہیں ہے کوئی میرے خاندان میں
شہر ادب میں ڈھونڈنا مشکل نہیں مجھے
میں ہوں کرایہ دار غزل کے مکان میں
سیفیؔ مٹھاس کس میں ہے اتنی بتائیے
جتنی مٹھاس ہے میری اردو زبان میں