تنہائی نے پھر بزم سجا لی ہے تو کیا ہے
تنہائی نے پھر بزم سجا لی ہے تو کیا ہے
چپ نے جو کہیں آگ جلالی ہے تو کیا ہے
لو خاک نشینان بیابان چلے پھر
منزل نے مری پیاس بجھا لی ہے تو کیا ہے
شاید رگ جاں توڑ کے نکلی ہے تمنا
خوابوں نے کوئی بزم سجا لی ہے تو کیا ہے
پھر عکس بجھا جاتا ہے سورج کی ضیا سے
آئینے سے وہ دھول اٹھا لی ہے تو کیا ہے
میں بھول بھلیوں میں کہیں گھوم رہی ہوں
دل نے کوئی دیوار گرا لی ہے تو کیا ہے
منت کش احساس کہاں چین ملے گا
منت مری صدیوں نے بڑھا لی ہے تو کیا ہے
مہندی کا کوئی رنگ ذرا دن نہیں ٹھہرا
مٹھی میں وہی خاک سجا لی ہے تو کیا ہے
مجھ میں ہی مری روح بھٹکتی ہے تو کب سے
آوارگیٔ شام سنبھالی ہے تو کیا ہے