تنہائی

اپنی تنہائی مجھے اچھی لگی
میں نے چاہا ہے اسے
اور پایا بھی اسے
اپنے روز و شب میں اکثر ہے بسایا بھی اسے
اسی نے دی ہیں مجھ کو ایسی خلوتیں
جن میں رہ کر
میں کبھی تنہا نہیں
ساتھ میرے انگنت ایسے احساسات ہیں
جن سے حاصل ہے
مری تنہائیوں کو اک سکوں
اک رفاقت
غم گساری
رہنمائی
رہبری
پا کے میں احساس کے اس قرب کو
رہ کے تنہا بھی نہیں تنہا رہی
میری تنہائی مری ہمدم مری دم ساز ہے
اس کے خال و خط سے میں اچھی طرح واقف نہیں
نام بھی مخصوص اس کو
کوئی دے سکتی نہیں
پھر بھی اس سے میں بہت مانوس ہوں
سینکڑوں سینوں کی دھڑکن
سینکڑوں آواز کو
سن رہی ہوں اس طرح
جیسے اک نغمہ کوئی
یا ہو بہتے پانی کا اک شور سا
جس کے شور و غل میں اب
کھو گئی جانے کہاں
مجھ کو تنہائی مری اچھی لگی
پیاری لگی