تماشائی

سامنے دھان کے کھیت میں کٹنی اب تک شروع نہیں ہوئی ہے ۔اور اس کھیت کے چاروں طرف سرسوں کی زردی چمک رہی ہے ۔اس کھیت کے دھان کو بہت پہلے ہی کٹ جاناچاہئے تھا ،اب توبہت دیرہوچکی ہے ، بہت دیر ہورہی ہے ۔
لیکن کون کاٹے گااس کھیت کے دھان کو؟
کون کاٹے گا ،اس کھیت کے دھان کو؟ جب میںیہ سوچتاہوں تو مجھے ایک شوخ اورچنچل سی ، سانولی لیکن بہت خوبصورت سی لڑکی یاد آتی ہے ۔ایسانہیں ہے کہ اب وہ لڑکی نہیں رہی ،وہ تواَب بھی ،اسی مکان میں ہے ۔لیکن ۔
لیکن مجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ وہ اَب یہاں نہیں رہتی ۔اگر رہتی ہے تو یہ وہ لڑکی نہیں ہے ۔یہ توکوئی اورہی لڑکی ہے ۔
ا س کاسانولا سلونا چہرہ کہاں گیا ؟ یہ سرسوں کے کھیت کی طرح زرد چہرے والی وہ لڑکی نہیں ہوسکتی ۔
اس کی آنکھوں میں، وہ شوخی اورچنچل پن کہاں ہے ؟ زخم خوردہ مسکراہٹ ، اورسہمی ہوئی آنکھوں والی یہ کوئی دوسری ہی لڑکی ہے ۔
گریہ وہ لڑکی نہیں ہے تو، پھریہ گاؤں بھی وہ نہیں ہے ۔گاؤں والے بھی وہ نہیں ہیں۔کچھ بھی تواب پہلے جیسانہیں رہا۔ ایسامحسوس ہوتاہے کہ گاؤں کی سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو کہیں اورچلی گئی ہے ۔یہاں کے لوگوں کے چہرے اچانک کسی دہشت سے کمہلا گئے ہیں ۔ اور سرسوں کے کھیت کی زردی ان کے چہروں پرنظر آنے لگی ہے ۔جھلستے لمحوں میں زندگی گزارنے والے ، یہ محنت کش لوگ ،جانے کون سی مہیب کھائی میں گرگئے ہیں ،یاگرنے کے خوف سے سراسیمہ اور متوحش ہیں !
یہاں اس گاؤں میں ،جہاں جہاں دھان کاٹاگیا ہے ، وہاں بھی خوشی کی کوئی رمق دکھائی نہیں دی ۔ابھی پچھلے ہی سال ،میں دھان کی کٹنی کے موقع پر انہیں خوشیاں مناتے دیکھ چکاہوں ۔لیکن ۔۔۔ امسال ؟ کتنی اچھی فصل ہوئی ہے ۔ پھر بھی ۔۔۔۔۔۔
دراصل اس گاؤں میں،میں ایک تماشائی کی حیثیت رکھتاہوں ۔میں ایک سال سے کچھ زیادہ مدت سے یہاں ہوں ،لیکن میں نے لوگوں کواتنے ہی دنوں میں ، کتنے روپ میں دیکھا ہے ،اسے کیسے بھول جاؤں ۔لڑتے جھگڑتے دیکھاہے ، میں نے ۔افلاس اورغربت میں زندگی گزارتے دیکھاہے ۔بھوک سے سوکھے ہوئے چہرے میں نے دیکھے ہیں۔ مجبوری ،بیچارگی ،تنگدستی ، محبت اورنفرت کولمحہ بہ لمحہ میں نے ان کے قریب ترآتے دیکھاہے ۔اور یہ لوگ قطرہ قطرہ میرے رگ وپے میں شامل ہو گئے ہیں ۔اور میراوجود یادوں کاایک پُرا سرار ذخیرہ ہوگیاہے ۔اور اب ا س پُر اسرار ذخیرہ کو، میں کہاں لے جاکر پھینک دوں ؟
میں ان یادوں سے پیچھا نہیں چھڑاسکتا ۔لیکن میں ان کے چہروں سے زردی کو دھوبھی تونہیں سکتا، کہ ایسا کرنے کی سکت مجھ میں نہیں ہے ۔میں تو محض ایک تماشائی ہوں ۔میں اُن کے سَروں پردھوپ کی تمازت دیکھ رہاہوں ۔
یہاں کوئی سایہ نہیں ہے ۔کہیں کوئی سایہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔!
دھوپ اورسائے کی بات سوچتاہوں تومجھے اپنے بچپن میں پڑھی ہوئی انگریزی کی ایک کہانی یاد آتی ہے ۔ بے حد سپاٹ اوربے مزہ کہانی۔ جیسی آج اس گاؤں کے لوگوں کی کہانی ہے ۔لیکن کہانی کہاں ہے ؟ کہانی ہوتی تو کہیں تولطافت ہوتی ، نزاکت ہوتی ،خیالوں کی نکہت ہوتی ،تصورکی خوشبوہوتی ،تخیل کی نزہت ہوتی ! لیکن یہ سب کہاں ہے ؟ یہاں تودور دورتک دھوپ پھیلی ہے یاسرسوں کے زرد کھیت !
مجھے اپنے بچپن میں پڑھی ہوئی انگریزی کی جوکہانی ، اس وقت یادآرہی ہے ، اس سے ا س گاؤں کاکتنا تعلق ہے ؟ یااس گاؤں کے لوگوں کاکوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ فیصلہ میں نہیں کرپارہاہوں ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اپنے بچپن میں، اس کہانی کو، بالکل نہیں سمجھ پایاتھا ۔ وہ چھ جزیروں سے گھِرے ہوئے ،جاپان کے ایک شہر ،ہیروشیما کی کہانی تھی ۔ 6؍اگست 1945ء کے دن کاواقعہ تھا ۔ایک خوبصورت سے مکان کے اندر مسٹرٹناکا اوران کی بیوی اوران کے بچے ناشتہ کررہے تھے ۔ناشتے کے بعد مسزٹناکا کچن میں چلی گئیں۔یوں ہی خواہ مخواہ وقت گزاری کی خاطر یاخوف کے سائے سے پیچھا چھڑا نے کے لیے !بچوں کواُن دنوں کے حالات کاکچھ بھی علم نہ تھا ۔وہ ایک بڑے کمرے میں جاکرلوڈوکاکھیل Snakes and Laddersکھیلنے لگے ۔مسٹر ٹناکا بھی ایک کمرے میں کرسی پربیٹھے تھے ۔کھڑکیاں کھلی تھیں ۔باہر آسمان صاف تھا ۔ مسٹر ٹناکاتمام صور ت حال کوبھول جانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے الماری سے ایک کتاب نکالی اورپڑھنے لگے۔ٹھیک اسی وقت سائرن کی آواز سنائی دی۔ہوائی جہازہیروشیماکے اوپرتھے، ۔۔۔۔۔۔ہیروشیماپربم گرایاگیا ۔آسمان پرروشنی کاجھماکا ہوا اور فضامیں چمکیلے سورج کی طرح کچھ دکھائی پڑا ۔بڑے زورکا شورہوا ،اور گردوغبار کا بادل اُٹھا اورسورج چھُپ گیا اوردن تاریکی میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔!
اس کہانی کے بارے میں، میں نے اپنے ماسٹر صاحب سے بہیتر ے سوالات کئے تھے۔وہ کیسے خوف کے سائے تھے ؟جس سے مسزٹناکاپیچھا چھڑاناچاہتی تھیں ۔وہ کیسے حالات تھے ؟ جنہیں بھولنے کی خاطر مسٹر ٹناکاخود کوکتاب میں گم کئے دے رہے تھے ۔ مسٹراورمسز ٹناکاکے بچوں کے Snakes and Ladder کے کھیل میں کون جیتا؟ اچانک سورج کیسے چھپ گیا؟ اور دن تاریکی میں کیسے ڈوب گیا؟ یہ ایٹم بم کیا ہوتا ہے؟
آج اچانک مجھے معلوم ہوگیا ۔
مسٹرٹناکاکتاب پڑھتے پڑھتے کس قدر کھوگئے ۔
مسزٹناکا کچن میں کتنی مشغول تھیں ۔
اُن کے بچوں کاکھیل کتنالطف اندوز اورپیارا تھا ۔
کون سیڑھی چڑھا ؟
کسے سانپ کی بے رحم اورمسموم اورلپلپاتی ہوئی زبان چاٹ گئی ؟
لیکن آج میں اس گاؤں کی کہانی سمجھنے سے قاصر ہوں ،کون جانے کسی دن یہ بھی میری سمجھ میں آجائے ۔۔۔۔۔۔
میرے ماسٹر صاحب آج نہیں ہیں لیکن ہیروشیماکی کہانی آج اچانک میری سمجھ میںآگئی ۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں چاہتاہوں کہ اس گاؤں کی کہانی آپ کوسُنادوں تاکہ سَند رہے اوروقت ضرورت کام آئے ۔
یہ کوئی زیادمدت کی بات نہیں ہے ۔اس گاؤں میں جب میں پہلی بار آیاتھا ۔ یہی کوئی ڈیڑھ سال کی مدت گزری ہوگی ۔سخت اُجاڑاور عجیب ویران ماحول لگتا تھا ، لیکن ایسابھی اُجاڑ اور ویران نہ تھا جیسا اب ہے ۔ اس ویرانی اورسونے پن میں نئے ماحول میںآنے کی سراسیمگی تھی ، اجنبیت کی غیرمرئی سی ، ہلکی سی ، جھجک تھی اورگھبراہٹ کے جھلملاتے ہوئے سائے تھے ۔گاؤں میں پہلی بارآنے کی خوشی اورشہر کے ماحول سے پہلی بارچھوٹنے کاغم تھا ۔ لیکن یہ سب کچھ اتنا جان لیوا نہ تھا، جتنا اب ہے ۔یہ اجاڑپن ،یہ ویرانی اوریہ سُونا پن کیساہے ،کیاہے ؟میں اِسے کوئی نام نہیں دے پا رہا ہوں ۔۔۔ آج مجھے سہارادینے والاکوئی نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ اس وقت ۔۔۔۔۔۔اس وقت تومیں ،اس لڑکی کی خوبصورتی اوراس کے چنچل پن کے حصار میں جکڑگیاتھا ۔بالکل انجانے میں اور غیرمحسوس طورپر ۔۔۔۔۔۔ تب اس کے چہرے پرسرسوں کے پھول کی سی زردی نہ تھی بلکہ شوخی تھی ، حیات افزا اورزندگی سے بھرپورشوخی تھی اور جینے کی امنگ تھی ۔۔۔۔۔۔ اس دن ۔۔۔۔۔۔!
اُس دن صبح صبح میری نیند ٹوٹی توایک غیر مانوس آواز کانوں میں مسلسل سنائی دے رہی تھی ،کوئی گیت تھا ،لیکن الفاظ اورمفہوم میری گرفت میں نہیںآرہے تھے ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن اس کی شیرینی اور موسیقیت میرے وجود میں دھیرے دھیرے تحلیل ہورہی تھی ۔۔۔۔۔۔
’’کیوں ۔۔۔۔۔۔آپ کہاں کھوگئے ہیں ؟ ‘‘ اس نے اچانک میری آنکھوں کے سامنے اپنی انگلیوں کودلفریب اندازمیں لہراتے ہوئے کہا۔
’’یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ آواز ۔۔۔۔۔۔ یہ گیت کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ بھلاآپ کی سمجھ میںآنے لگے تو ۔۔۔۔۔۔تو آپ شہر کے بابوکیسے کہلائیں گے۔کچھ معلوم بھی ہے ؟ آج روپنی لگی ہے ۔۔۔۔۔۔ اورروپنی یونہی چپ چپاتے ، خاموشی سے بھی ہوتی ہے کہیں ؟ ‘‘
میں اس کی بات کچھ سمجھ پایاکچھ نہیں سمجھ سکا۔
میں نے اپنے کندھے پرتولیہ اورلنگی رکھی اوراپنے ہاتھوں میں، پیسٹ ،برش اورصابن دانی لے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
غسل کے بعد جب دوبارہ کمرے میں داخل ہواتو وہ نہایت اطمینان سے بیٹھی ایک رسالے میں گم تھی ۔ میں کپڑوں کاانتخاب کرنے لگا ۔جب میں کپڑے پہن کربالکل تیارہوگیا تواس نے میرے گہرے نیلے پینٹ اورہلکے بادامی رنگ کی قمیص کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔۔
’’آپ کوکون سارنگ پسند ہے ؟ ‘‘
’’رنگ ۔۔۔۔۔۔؟ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔’’تمہارے بدن کا ۔۔‘‘
ایک دم اس کاچہرہ گلنار ہوگیا ۔مجھے لگاایک لمحہ کووہ کپکپاگئی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ تھوڑی دیرکی خاموشی کے بعد اس نے پھر پوچھا ۔۔۔۔۔۔’’نہیں ،بتائیے ناآپ کوکون سارنگ پسند ہے ؟ ‘‘
’’آخر یہ آج تمہیں رنگوں کی کیاسوجھی ؟‘‘
’’بڑی شہرت ہے ،آپ کی ذہانت کی ۔میں اسے پرکھناچاہتی ہوں ۔‘‘
’’یعنی میری ذہانت کونانپنے کے لیے تمہارے پاس رنگوں کی کسوٹی ہے ۔‘‘
’’یہی سمجھ لیجئے ۔یہ امتحان ہے آپ کا۔‘‘اس نے شرارت سے کہا۔
’’سمجھ لو، تمہیں جورنگ پسند ہے مجھے بھی پسند ہے ۔‘‘
’’یہ کوئی بات نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔ اچھا مجھے کون سارنگ پسند ہے ۔ یہی بتائیے ۔‘‘
’’گلابی رنگ ‘‘ گلاب کاسا ۔‘‘
اس نے میراجواب سُن کر اپنے ہونٹ بچکائے۔
’’اچھا چنبیلی کارنگ ۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے دوبارہ کہا۔
’’اُوں ہوں ۔۔۔۔۔۔ ایک دم فیل ،آپ اتنابھی نہیں سمجھتے ،بھلا گاؤں میں گلاب اورچنبیلی کے رنگوں کے پیچھے کون بھاگتاہے ۔‘‘؟
میں کچھ نہیں سمجھ پایاوہ کیاکہناچاہتی تھی ۔پھرمجھے یاد آیا ،میراایک شاعر دوست ، ہمیشہ کہتاہے ،میری نظموں میں تم نے جابجاسرسوں کے پھول کاذکر دیکھاہوگا ، ایساکیوں ہے ؟ دراصل میں دیہات کارہنے والاہوں اورمجھے سرسوں کے پھول بہت پسند ہیں ۔تم نے سرسوں کاکھیت دیکھاہے ؟‘‘
میں نے سرسوں کاکھیت کہاں دیکھاہے ؟
میں نے سوچا ،اپنے دوست کی پسند کاسہارا لوں اور یہاں اس وقت کسی طور یہ امتحان پاس ہوجاؤں ۔میں نے اس سے کہا ۔
’’اچھا سنو،سرسوں کے پھول کارنگ پسند ہے ۔‘‘
میرایہ جملہ سُنتے ہی وہ لوٹ پوٹ ہوگئی ۔
اس کی ہنسی کسی طرح رکنے کانام ہی نہ لیتی تھی ۔اورمیں عجیب مخمصے میں پڑگیا ۔ میں نے کیاکہہ دیا،مجھے کیاکہنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔۔
’’اچھا سُنئے ۔‘‘ بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پرقابوپاتے ہوئے اس نے کہا’’اس فصل کے کٹنے تک کی مہلت دیتی ہوں ،اس سوال کے جواب کے لیے ۔ورنہ ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں سمجھ لوں گی آپ بالکل ۔۔۔۔۔۔ بالکل ۔۔۔۔۔۔‘‘ اوروہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی ۔
میںیہاں اس کمرے میں بیٹھا ،اس کھڑکی سے باہر کامنظردیکھ رہاہوں اورانتظار کررہاہوں کہ وہ لڑکی کمرے میں داخل ہوتواس سے کہوں ،مجھے کون سارنگ پسندہے۔اس نے تو گزشتہ سال فصل کٹنے تک کی مہلت دی تھی۔ ایک سال گزرگیا ۔ دھان کی فصل کٹ گئی گیہوں کی فصل بھی کٹ گئی اورمیں اُسے جواب دینا بھول گیایاوہ اپناسوال بھول گئی ۔جانے کیاہوالیکن آج ۔۔۔۔۔۔!
آج میں اس سے کہناچاہتاہوں کہ مجھے سرسوں کے پھول بالکل پسند نہیں سرسوں کے کھیت بالکل پسند نہیں ۔وہ تومجھے میرے شاعردوست نے گمراہ کردیاتھا ۔ ورنہ گاؤں میں رہنے والا کوئی سرسوں کے پھول کوکیسے پسند کر ے گا۔۔۔ مجھے دھان کاسنہرا رنگ پسند ہے ،گیہوں کی لہراتی ہوئی بالیوں کارنگ بھی پسندہے ۔مگر یہ سب میں اس سے کیسے کہوں ؟
وہ لڑکی کب سے اس کمرے میں نہیں آئی ہے ۔اورمیں اس کے پاس جاتے ہوئے ڈرتاہوں ،جانے کیوں؟ شاید مجھے اس کے سرسوں کے پھول سے پیلے چہرے سے خوف آتاہے ،کیونکہ میں سرسوں کی سی زردی اس کے چہرے پرنہیں دیکھ سکتا ۔
مجھے واقعی دھان کی بالیوں کی سُنہری رنگت پسند ہے ۔
سامنے دھان کے کھیت میں کٹنی اب تک نہیں لگی ہے ۔حالانکہ اب سے بہت پہلے اسے کٹ جاناچاہئے تھا۔ لیکن کون کاٹے گاانہیں ؟
اِسے کاٹنے والے توعید کی نماز کی بھیڑ میں گم ہوگئے ہیں ۔۔!
میرے لیے یہ شمار کرناانتہائی تکلیف دہ ہے کہ کتنے لوگ اس گاؤں سے عید کی نماز پڑھنے شہر گئے اور کتنے لوٹے ۔۔۔؟
میں شمار کرکے کروں گابھی کیا؟ میں تومحض ایک تماشائی ہوں اوردیکھ رہا ہوں ،گاؤں میں چاروں طرف سرسوں کے پھول کی زردی چمک رہی ہے ۔ اورسامنے دھان کے کھیت میں کٹنی اب تک نہیں لگی ہے ۔۔۔۔!
لیکن کون کاٹے گا،اس کھیت کے دھان کو؟