خوابوں کاقیدی
اُس شیشی کوجوسائڈ ٹیبل پررکھی ہے ، میں بہت دیر سے گھور رہاہوں ، میں اس شیشی کونہیں بلکہ اس کے اندر مکسچرکو گھوررہاہوں ، جس کومجھے پینا ہے ۔
میں اس کشادہ مسہری پرتکیہ کے سہارے بیٹھاہوں،میری بیوی میرے بازو میں سورہی ہے اورمیں اس کے چہرے پربکھرے ہوئے بالوں کودیکھ رہاہوں ، اُس کی بند پلکوں میں لمحہ بہ لمحہ اُترتے ہوئے خواب کومحسوس کررہاہوں ۔لیکن میں اپنی بیوی کی بندپلکوں کے اندر اُترتے ہوئے خوابوں کی تفصیل جاننا نہیں چاہتا، میں تواس مکسچر کوبھی دیکھنانہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ رہاہوں ، یہ مکسچر ۔۔۔۔۔۔ اب میری زندگی ہے ، میری آرزو ہے ،میری تمناہے ، میراماضی ، میرا حال، میرامستقبل ہے ۔۔۔۔۔۔یہ مسکچر میری خوب صورت اور تاریک راتیں ہیں، میراخواب ہے ۔۔۔۔۔۔ خواب ؟
میں ساری زندگی خواب دیکھتارہا ،میں ساری زندگی اپنے خوابوں کو سجانے اور سنوارنے میں لگارہا،لیکن اب وہ سارے خواب، جس میں سے کچھ شرمندۂ تعبیر ہوچکے ہیں اورکچھ کوشرمندۂ تعبیرہونامیسر نہ ہوا ،سارے کے سارے سکڑکر، سِمٹ کر اس شیشی کے اندر بند ہوگئے ہیں، اس شیشی کے اندرنہیں بلکہ اُس مسکچر کے طابع ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اورمیرے سامنے اب خوابوں کی رہ گذر پریہاں سے وہاں تک، دور تک زردپتے اُڑرہے ہیں ، اندھیرا بہت گھنگھور ہوگیاہے اور سِمٹ سِمٹ کرمیرے اندر اُتر رہاہے ،جنہیں میں اپنے آنسوؤں کی مغموم روشنی تلے دبادیناچاہتاہوں مگر ۔۔۔۔۔۔مگر آنسوؤں کی یہ مغموم روشنی،یونہی کپکپا کپکپا کررہ جاتی ہے ،اس کپکپاہٹ کومیں دن رات اپنے کپڑے کے اندر سینے میں محسوس کرتاہوں ۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی کپکپاہٹ ہے ،یہ کپڑے کاکھردراپن ہے ،یااس کی چکناہٹ ۔۔۔۔۔۔!
کپڑے کی الماری کھولے کھڑا میں سوچ رہاہوں ۔
آج کون سے کپڑے پہنوں ؟ کپڑوں کاانتخاب کم کٹھن نہیں ہوتا ۔مجھے لگتاہے کپڑوں سے بھری الماری اچانک خالی ہوگئی ہے، اس میں ایک جوڑا ہینگر کے سہارے لٹک رہاہے ۔میرے اندرایک عجیب سی لہررینگ آئی ،لگا اُس لہر ،اُس احساس سے میرا کوئی پرانا سمبندھ ہے ،میری گہری شناسائی ہے ۔۔۔۔۔۔
ہاتھ بڑھاکرمیں نے ہینگرسے لٹکے ہوئے کپڑے کواُتارلیا۔
پینٹ کااُداس اوربجھا بجھا سارنگ دیکھ کرلگا ،زندگی بجھ رہی ہے ، تھکی ہاری کیفیت دھیرے دھیرے میرے وجود کوگھیرنے لگی ۔شرٹ پہن کرمیں نے بٹن لگاناچاہاتومعلوم ہوابٹن غائب ہے ۔۔۔۔۔۔ جھنجھلاہٹ اوربے بسی سے پورابدن کانپ گیا۔
’’سنبل ۔۔۔۔۔۔‘‘ میری آواز میں کرختگی تھی ۔
’’قمیص سے بٹن غائب ہے کسی کام کاہوش رہتاہے تمہیں ۔‘‘
ْْ’’اُف ۔۔۔۔۔۔اُو ۔۔۔۔۔۔ آپ توخواہ مخواہ غصہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لائیے ابھی بٹن ٹانکے دیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔‘‘
جانے اس آواز میں کیاخوبی تھی ، میری جھنجھلاہٹ ایسے چھٹ گئی ،جیسے اس کاکوئی وجود نہ تھا۔
وجود ۔۔۔؟ میرااپنا بھی کوئی وجود ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔ کہاں ہے میرا وجود ۔۔۔ ؟
میں اس کپڑے سے بھری الماری کے سامنے کھڑا اپنے وجود ہی کوڈھونڈ رہاہوں ، کہاں کھوگیاہے ، وہ ۔۔۔۔۔۔ ؟
اور ۔۔۔!وہ جھنجھلاہٹ اورجھنجھلاہٹ کوکافور کردینے والی جادو بھری آواز ؟ کچھ بھی تونہیں ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ کھوگیا۔۔۔۔۔۔ میری ساری زندگی غیرمحسوس طورپر نہ جانے کہاں کھوگئی ؟ کہاں؟ ذراسی بے ایمانی صرف ایک خواب کی تعبیر ڈھونڈ نے کے جرم کا مرتکب ہونا، اتنابڑا گناہ ہے ، اس کی سزااتنی طویل اورویران کردینے والی ہوگی ، میں نے سوچابھی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔ میں سوچتابھی کیسے ، سیٹھ جیلانی کوسینکڑوں باربے ایمانی کرتے دیکھ چکاتھا، حکومت کے ساتھ ،سماج کے ساتھ ، فیکٹری کے ملازموں کے ساتھ ، اُس پرتوکوئی اثرنہیں ، اس کی زندگی میں توکوئی ویرانی نہیں ، پھر مجھے کیاہوگیا ۔ دراصل ایمان داری کے سانچے میں، بے ایمانی کی غیر معین صورتوں میں ڈھلنے کاکرب کوئی معمولی نہیں ہوتا ، ابتدا ء میں نہ یہ سازگار آتاہے نہ وہ ۔۔۔۔۔۔
میں ایک بار پھر کپڑوں کی الماری میں جھانکتاہوں۔میں کپڑوں کی بھری پُری الماری میںآخر کیاتلاش کررہاہوں ! کیوں تلاش کررہاہوں ؟ میراسرچکر انے لگتا ہے ۔کون سالباس پہنوں ؟ اُف یہ کیسی اذیت ہے ،یہ کیسی سزاہے ؟ مجھے لگتاہے ، میں یہاں کھڑالباس کاانتخاب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کررہاہوں بلکہ خودکو ڈھونڈنے کی سعی کررہاہوں ۔ جانے اس کوشش کاکوئی اَنت بھی ہوکہ نہ ہو۔۔۔۔۔۔!
میں نے کپڑوں کی الماری سے اپنے لیے ایک جوڑا نکال لیاہے ،کریم کلرکا پینٹ اورشوخ رنگ کی قمیص ،جس میں سرُخ رنگ کی لکیر وں کاجال سابُنا ہے ۔ میں نے یہ کپڑے پہن لیے ہیں ،اوراب آئینے کے سامنے کھڑاہوکر خود کودیکھ رہاہوں ۔
مجھے لگتاہے ،میں ایک ڈمی ہوں، جس کے اوپر خوبصورت اورقیمتی پوشاک منڈھ دی گئی ہے ۔خوبصورت اورقیمتی پوشاک سے جگمگا تاہوا یہ ڈمی ، اندرسے کتنا کھوکھلا ،کھنڈر اوربے جان ہے ، دیکھنے والے محسوس نہیں کرتے !
قدِ آدم آئینے میں کھڑے اس ڈمی کو، میں گھور رہاہوں ۔اچانک میری قمیص پربنی لال لکیروں کاجال دھیرے دھیرے بڑھنے اورپھیلنے لگا، سُرخ لکیروں کاجال بڑھتے بڑھتے پورے آئینہ پرپھیل گیا۔ پورے آئینہ پریہ لکیریں نہیں پھیلی ہیں، بلکہ میرے پورے وجود کے گرداِس طرح پھیل گئی ہیں کہ اُن کے حصار میں میں جکڑا جا چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔ حصار کے اندر اورباہر سرخ رنگ ہے ، سرخ رنگ ۔۔۔ سرخ ۔۔۔۔۔۔
خون کے چھینٹے کارکے وِنڈاسکرین پرپڑے اورمیں نے اپنی پوری قوت سے بریک لگایا مگراس سے پہلے کہ کار رُکتی خون یہاں سے وہاں تک پوری سڑک پرپھیل چکاتھا اوروہ معصوم چہرہ ۔۔۔۔۔۔؟ اُ س کی دردناک آخری چیخ میرے اندربہت نیچے اُترچکی تھی ۔
’’حادثہ توزندگی کامعمول ہے ،آپ اس قدر نروس کیوں ہیں ،ہم جانتے ہیں اس میں آپ کاقصور نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ انسپکٹر نے مجھے دلاسہ دیا۔ لیکن میرے اندرجودردناک چیخ اُتر چکی تھی ،اسے کس نے دیکھاتھا، کس نے محسوس کیاتھا ؟ میں اُس کیفیت کوبیان بھی تونہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔ لیکن میں کیاکرسکتاہوں ،قصور میرا نہیں ،غلطی میری نہیں تھی، وہ اچانک میرے سامنے آگیاتھا،لیکن ۔۔۔؟ لیکن اُس نے میرے دل میں جوکانٹا چبھودیاہے ،اس کونکالنے کے لیے سوزن کہاں سے لاؤں ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ اس چبھن کی اذیت کوکس سے بیان کروں ؟ کاش اُس حادثہ سے دوچارنہ ہوتا، کاش مجھے کارچلانے کی مہارت پرغرور نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔ کاش میرے پاس کارہی نہ ہوتی ۔۔۔۔۔۔ کار ۔۔۔۔۔۔ ؟ اُف ،میں نے اس کے لیے خواب دیکھے تھے ،اس کی تمنا کی تھی ۔۔۔۔۔۔ مگرکون جانتاتھا میری تمنا ؤں کی تکمیل کے بعد میرے اندر یہ کھوکھلاپن در آئے گا ،اس تنہائی اورکمی کااحساس مجھے نہ جینے دے گا نہ مرنے دے گا۔
اچانک مجھے لگاکوئی باز ، کوئی خوفناک پرندہ کہیں قریب سے مجھے گھوررہاہے ، اُس کی لال لال دہکتی ہوئی آنکھیں مجھے اپنے سارے بدن میں چبھتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ دفعتاً لگااس نے اپنی لمبی اورنوکدار چونچ میری شہ رگ میں گڑادی ہے ،اوراب میرے بدن کاخون دھیرے دھیرے اُس کے جسم میں منتقل ہورہاہے ۔۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے میرابدن پیلاپڑرہاہے ۔۔۔۔۔۔ پیلا ۔۔۔۔۔۔ پیلا ۔۔۔۔۔۔ پھرمجھے لگامیں بالکل زرد ہوگیاہوں ،رزد ، بالکل ہلدی کی طرح ۔۔۔۔۔۔میرے وجود سے یہ زردی کس طرح چپک گئی ہے ۔۔۔۔۔۔!
زردی ۔۔۔۔۔۔؟
زندگی کے سارے رنگ کوجودھوڈالتی ہے ، یہ کون سی شئے ہے ؟
اس زردی میں اتنی شدت کہاں سے آگئی کہ ہررنگ پرغالب آگئی ۔لیکن یہ زردی میری جانی بوجھی ہوئی ہے ،دیکھی بھالی ہے ۔
یہی رنگ تھاجواُس دن اچانک سیٹھ جیلانی کے چہرے پراُبھررہی تھی اور میرے اندر سوناپن اورخالی پن مستقل ہورہاتھا ۔۔۔۔۔۔
یہ سوناپن ،یہ خالی پن مستقل ہورہاتھا ۔۔۔۔۔۔
یہ سوناپن ، یہ خالی پن ،میرا احساسِ جرم تھا ، یاسیٹھ جیلانی کے چہرے پر اُبھری ہوئی زردی کاپرتو ۔۔۔۔۔۔؟
ایک لمحہ کے لیے میں ہارگیاتھا ۔میں ہمت چھوڑ چکاتھا ۔یاخالی پن سے خوف زدہ ہوگیاتھا ؟ بات جوبھی رہی ہو، میں نے چاہا تھا ،سیٹھ جیلانی کے چہرے سے زردی کو دھوڈالوں ،اپنی زندگی میں خالی پن کو گھسنے نہ دوں ،لیکن نہ جانے کیاہوا کہ میں کچھ بھی نہ کرسکا ۔۔۔۔۔۔ میری نظریں نیچی ہوچکی تھیں اور سیٹھ جیلانی کی آواز زندگی کے ہنگامے میں میرے وجود کاتعاقب کررہی تھی۔
’’زندگی راس آئے گی تمہیں نہ موت ۔ساری زندگی اپناکھوکھلاپن لیے تڑپتے رہوگے ۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے نظر اوپر اٹھائی تووہ جاچکے تھے ، پھربھی ان کی آواز میرے کانوں میں گرم سیسے کی طرح اُتررہی تھی ،میرے کانوں کے راستے سے اندر اُترنے کی کوشش کر رہی تھی ، لیکن جانے کیاہوا ، جانے مجھے کہاں سے قوت مل گئی ، میں نے اس آواز کو دبا دیا ،اُسے اپنے اندر اُترنے سے روک دیا۔ میں نے سوچا ،میں نے توکاغذات پر دستخط کراتے وقت ہی اشارہ کردیاتھا ۔
’’سرآپ بغیر پڑھے کاغذات پردستخط کردیتے ہیں، اگرکچھ غلط کاغذات پر آپ کے دستخط لے لیے جائیں تو ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’تو کیاہوگا ۔۔۔۔۔۔؟ میراکیاجائے گا ،میری طمانیت کوپھربھی کوئی جھٹکا نہیں پہنچے گا ۔میں دستخط کررہاہوتاہوں توان کے صحیح ہونے کی ضمانت تم ہو۔۔۔۔۔۔ اگرتم نے بے ایمانی کی توسمجھوں گا، اپنایہاں کوئی نہیں ،اور یہ جان لینے کے بعد آگے کا سفرمیرے لیے آسان ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔! ‘‘
اُ س وقت میرے اندرکیسی ہل چل مچی تھی ۔۔۔۔۔۔!
ان کاغذات پردستخط لے کر میں نے کیاپایا؟ سیٹھ جیلانی نے کیاکھویا ؟
انہوں نے کہاتھا ،آگے کاسفر میرے لیے آسان ہوجائے گا ،پتہ نہیں وہ کیا کہنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔؟ آگے کی منزل کیاہے ؟ ہماری اگلی منزل کہاں ہے ؟ خوابوں کے مسافر بھی دھندلکے سے کتنا پیار کرتے ہیں! ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ ہمارے آنے کامقصد کیاہے ، حاصل کیاہے ؟ ۔۔۔۔۔۔ ہمیں جاناکہاں ہے ؟ میں کون ہوں ؟ کیاہوں؟ کیوں ہوں؟ کچھ بھی تونہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ !
اب تک میں خواب دیکھتاآیاہوں ،خوابوں کی تعبیرڈھونڈتارہا ہوں ۔ میرے خوابوں نے مجھے کہاں کہاں رسواکیا۔ کہاں مجھے وقار بخشا ،کہاں غلاظت ملی اور کہاں پاکیزہ گی ۔۔۔۔۔۔ اب کوئی تمیز نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔ صرف ایک احساس ہے ، اپنے ویران ہونے کا، اپنے کھنڈر ہونے کا ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ پاکر بھی سب کچھ کھودینے کا ۔۔۔۔۔۔ سیٹھ جیلانی کودغادے کرجوکچھ میں نے حاصل کیا، وہ میرااپنا ہوکر بھی تومجھے سکون نہ دے سکا ۔۔۔۔۔۔
آنکھیں کھولتاہوں تومیرے سامنے ،میرا لمباچوڑا یہ زردمکان ہے اور اس کے اندر اورباہر میری لمبی اُداس اورخاموش زندگی ۔۔۔۔۔۔ دل کے اندر جھانکتا ہوں توکبھی سوناپن ہاتھ آتاہے توکبھی جھُلسادینے والاسرخ سمندر دکھائی دیتاہے ۔ اور دل سے باہر ؟ یہ سائڈ ٹیبل پررکھی ہوئی شیشی کے اندرسے جھانکتاہوامکسچر ۔۔۔۔۔۔
یہ میرابھراپُراگھر ،یہ بیوی بچے ، نوکر چاکر ،لیکن دکھوں کاکوئی بھی امان نہیں ، اس دل کے سوا ،اس دل نے بھی توٹھوکریں کھلائی ہیں ۔اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اجنبی رہ گذاروں پراتنا آگے نکل آیاہوں کہ اب بھٹکنے کے سوا کوئی چار ابھی تونہیں ۔۔۔۔۔۔ !
رات بھیگ چکی ہے ۔ میرے بازومیں میری بیوی سنبل کروٹیں بدل رہی ہے لیکن میں بہت تھکاہوا ہوں ۔کل سویرے ایک پارٹی سے تجارتی ایگر یمنٹ بھی کرناہے ۔ میری کوئی خواہش نہیں ۔لیکن سنبل کے چہرے پررینگتے ہوئے سائے کو میں دیکھ رہاہوں اورسمجھ رہاہوں ۔تاہم اس کی خواہش کی تکمیل کی ذرا بھی سکت مَیں خود میں نہیں پارہاہوں ۔
اب مجھے سوجانا چاہئے ۔۔۔۔۔۔میں سوچتاہوں ،پھر سائڈٹیبل پررکھی ہوئی شیشی میں جوآخری نشان تک مکسچر تھا، اُسے حلق سے نیچے اُتارلیتاہوں اورپانی کاگلاس اُٹھاکر کئی بڑے بڑے گھونٹ سے مسکچر کے تیکھے پن کودور کرتاہوں ۔پھر سوئچ آف کرکے مسہری پرلیٹ کرآنکھیں موند لیتاہوں تاکہ میرے ذہن کے کسی دراڑ کسی شگاف سے میرے ماضی ،حال اور مستقبل تک روشنی کا گزرنہ ہوسکے۔