تلخئ غم مرے احساس کا سرمایا ہے
تلخئ غم مرے احساس کا سرمایا ہے
حسن سے میں نے یہ انعام وفا پایا ہے
جب کبھی عشرت رفتہ کا خیال آیا ہے
میں نے پہروں دل بے تاب کو سمجھایا ہے
ہائے یہ بے خودی عشق کو معلوم نہیں
کون آیا ہے کب آیا ہے کہاں آیا ہے
دل کو سیماب صفت کہہ کے گزرنے والے
خود پہ تڑپا ہے کہ تو نے اسے تڑپایا ہے
کافر عشق نہ سمجھوں تو اسے کیا سمجھوں
میرے اخلاص کو اک دوست نے ٹھکرایا ہے
اپنی اس ہار کو میں جیت نہ کیوں کر سمجھوں
خود کو کھویا ہے تو اے دوست تجھے پایا ہے
تم مرے حال پریشاں پہ نہ تنقید کرو
تم نے دامن کبھی کانٹوں میں بھی الجھایا ہے
منزل دل بھی وہی کوئے ملامت بھی وہی
عشق کا جذبۂ بے تاب کہاں لایا ہے
آنکھ جھپکے گی تو شیرازہ بکھر جائے گا
کس کی آواز تھی جس نے مجھے چونکایا ہے
جس کو کہتے ہیں غزل اس کی بدولت ہی عروجؔ
رخ اردو پہ یہ رنگ اور نکھار آیا ہے