تکلیف التفات گریزاں کبھی کبھی

تکلیف التفات گریزاں کبھی کبھی
یوں بھی ہوئی ہے پرسش پنہاں کبھی کبھی


معراج دید جلوۂ جاناں کبھی کبھی
ہم بھی رہے ہیں نازش دوراں کبھی کبھی


یہ اور بات ربط مسلسل نہ کہہ سکیں
چوما ہے ہم نے دامن جاناں کبھی کبھی


نقش خیال آپ کی تصویر بن گیا
یہ معجزہ ہوا ہے نمایاں کبھی کبھی


بندہ نوازئ کرم گاہ گاہ سے
ہم بھی تھے کائنات بداماں کبھی کبھی


لغزش کی بات ورثۂ آدم کی بات ہے
کھاتا ہے ٹھوکریں دل انساں کبھی کبھی


کروٹ بدل گئی ہے تری وضع التفات
دیکھا ہے یہ بھی خواب پریشاں کبھی کبھی


یہ سرکشی کے نام سے منسوب ہی سہی
ہوتا ہے دل بھی سر بہ گریباں کبھی کبھی


اکثر نشاط سیر گلستان بے خزاں
اندازۂ فریب بہاراں کبھی کبھی


میرے لبوں پہ موج تبسم کے باوجود
غم ہو گیا ہے رخ سے نمایاں کبھی کبھی


کہنا پڑا ہے جلوۂ صد رنگ روکئے
نظریں ہوئی ہیں اتنی پریشاں کبھی کبھی


خود اپنے آس پاس اندھیروں کو دیکھ کر
گھبرا اٹھی ہے صبح بہاراں کبھی کبھی


دامن بچا کے ہم تو گزر جائیں اے عروجؔ
خود چھیڑتی ہے گردش دوراں کبھی کبھی