تجدید زندگی کے اشارے ہوئے تو ہیں
تجدید زندگی کے اشارے ہوئے تو ہیں
کچھ پل سہی وہ آج ہمارے ہوئے تو ہیں
مانا نصیب ہو نہ سکا کوئی آفتاب
راتوں میں میری چاند ستارے ہوئے تو ہیں
بے شک حقیقتوں سے بہت دور ہے مگر
بے شک یہی سراب سہارے ہوئے تو ہیں
چھوٹا نہیں ہے دامن امید اب تلک
ہم بھی اے دوست وقت کے مارے ہوئے تو ہیں
یہ اور بات ہم ہی نہ محظوظ ہو سکے
خوش رنگ زندگی کے نظارے ہوئے تو ہیں