تہنیت
کتنے بخت والے ہو
زندگی میں جو چاہا
تم نے پا لیا آخر
عزم اور ہمت سے
فہم سے ذکاوت سے
ہے تمہارے دامن میں
پھول کامرانی کا
اور تمہارے ماتھے پر
فخر کا ستارہ ہے
اب تمہارے چہرے پر
ایسی شادمانی ہے
کوئی کہہ نہیں سکتا
درد سے بھی واقف ہو
اور تمہارے پاؤں میں
دیر سے کھٹکتا ہے
آرزو کا اک کانٹا
جس سے خون رستا ہے
لالہ زار راہوں پر
اس لہو کی سرخی کی
کانپتی لکیریں ہیں
ان لہو کے دھبوں میں
ناتمام مبہم سی
ایک بات لکھی ہے