تاریخ کے مردہ خانے سے
ناری اور شودر کو سمان سمجھنے والے مہا پرش
اتہاس کے پنوں میں کھو گئے ہیں
ہونٹ آج بھی تھرتھراتے ہیں
لفظ میلے نہ ہو جائیں
زمین تھی تو پتھریلی
لیکن اپنا کنواں کھودا
تو پانی میٹھا نکلا
پھنکارتے آبھوشن
صندوقوں میں بند کر کے
چابی بزرگوں کے حوالے کر دی گئی
اڑتے ہوئے لفظوں کو مٹھیوں میں پکڑتے ہی
چاند شرمانے لگا
روشنی کا سودا کرنے والوں نے
گہرے گڑھے کھود کر
کرنوں کو دفنانا چاہا
لیکن وہ زندہ شریانوں میں
لہو بن کر دوڑ گئیں
مساموں سے پھوٹتے اجالوں کی یورش میں
بہہ نکلے جانے کتنے میرؔ و سوداؔ
کتنے کالیداسؔ
الٹی پوتھی پکڑے پکڑے
جانے کب ڈھائی اکھشر سیدھے
ڈھائی الٹے پڑھے
اور دریا میں ڈبکی لگانے سے پہلے
سرسوتی کو کہتے سنا
دشینت کی انگشتری لہروں کے حوالے کر دو
مچھلیاں چغل خور ہوتی ہیں
بھرتؔ کو اپنے اندر تھامے رہو
تا ابد