طاری مرے شعور پہ وجدان ہی رہا
طاری مرے شعور پہ وجدان ہی رہا
آیا خودی کو ہوش تو اک آن ہی رہا
تھا حوصلہ کہ دامن حیراں کریں گے چاک
ہاتھوں میں لیکن اپنا گریبان ہی رہا
پھر تو وہی تھی دھوپ وہی دھوپ کا سفر
زلفوں کی چھاؤں میں بھی تو مہمان ہی رہا
احسان تیرے عشق کا کیا حق ادا کرے
اس پہ تو اس کی عقل کا فیضان ہی رہا
احساں خراب چشم عنایت نہ ہو سکا
یہ بھی تو اک لحاظ سے احسانؔ ہی رہا