صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے

صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے
آئینہ دل اس کو جو درکار تھا سو ہے


یہ دل ہے تیغ ابروئے خم دار کا شہید
اس کا گواہ دیدۂ خم دار تھا سو ہے


مالک ہے میرے دل کا خدا تجھ سے اے صنم
پیوستہ بندگی کا جو اقرار تھا سو ہے


ظاہر میں گرچہ کفر سے منکر ہوا ہے شیخ
پوشیدہ اس کی سبحہ میں زنار تھا سو ہے


تجھ خط کی یاد میں دل حیران عشق کا
در نجف کی طرح سے مودار تھا سو ہے