سورج سے بھی آگے کا جہاں دیکھ رہا ہے
سورج سے بھی آگے کا جہاں دیکھ رہا ہے
اس دور کا انسان کہاں دیکھ رہا ہے
حالات نے جس کے سبھی پر کاٹ دئے ہیں
وہ آج بھی منزل کا نشاں دیکھ رہا ہے
عیار بہت ہے یہاں تخریب کا موجد
وہ برف کے جنگل میں دھواں دیکھ رہا ہے
اک روز پکڑ لے گا وہ قاتل کا گریباں
جو وقت کی رفتار زباں دیکھ رہا ہے
صدیوں کے تعلق کا یہ احساس ہے شاید
صحرا میں حقیقت کو عیاں دیکھ رہا ہے
اس سرپھرے موسم کا بھروسہ نہیں ثاقبؔ
ماحول کا سب بار گراں دیکھ رہا ہے