سنگ اس کا ہے اور سر میرا

سنگ اس کا ہے اور سر میرا
آخری موڑ پر ہے ڈر میرا


اک چھلاوا ہے میل کا پتھر
اک حقیقت ہے یہ سفر میرا


اے ہواؤ چلو گواہی دو
تم نے دیکھا ہے جلتا گھر میرا


دو گھڑی اور مجھ کو سن لیجے
اب تو قصہ ہے مختصر میرا


جب زمانہ تھا میری مٹھی میں
کام آیا بہت ہنر میرا


میں نہیں فن شناس کہتے ہیں
نام تھوڑا ہے معتبر میرا


بس کسی طور اے میاں ثاقبؔ
ہو رہا ہے گزر بسر میرا