سورج کی کرن دیکھ کے بیزار ہوئے ہو

سورج کی کرن دیکھ کے بیزار ہوئے ہو
شاید کہ ابھی خواب سے بے دار ہوئے ہو


منزل ہے کہاں تم کو دکھائی نہیں دے گی
تم اپنے لیے آپ ہی دیوار ہوئے ہو


احساس کی دولت جو ملے گی تو کہاں سے
کچھ بھی نہ رہا پاس تو ہشیار ہوئے ہو


سوچو تو ہے موجود نہ سوچو تو نہیں ہے
جس دام میں تم لوگ گرفتار ہوئے ہو


اپنے سے تغافل ہے کہ بے راہروی ہے
کیا سوچ کے دنیا کے طلب گار ہوئے ہو


یہ رشتۂ دل توڑ کے کیا تم کو ملا ہے
ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح خوار ہوئے ہو


پہلے بھی کبھی نور کا احساس ہوا تھا
یا آج ہی اس غم سے خبردار ہوئے ہو


مجنوں ہو تو ہے خاک اڑانے سے تمہیں کام
یوسف ہو تو رسوا سر بازار ہوئے ہو


کل تک تو ان آنکھوں میں مروت کی جھلک تھی
فتنہ ہو تو پھر آج ہی بے دار ہوئے ہو


کوئی افق دل پہ نمودار تو ہو لے
تم کس کے قدم لینے کو تیار ہوئے ہو


یہ چھب یہ جھمک آنکھ سے دیکھی نہیں جاتی
تم اڑتے ہوئے وقت کی رفتار ہوئے ہو


شہزادؔ تأسف نہ کرو بے اثری پر
تم دست رسا کب تھے کہ بے کار ہوئے ہو