سورج
کبھی جب خود سے گھبراتا ہے سورج
ٹہل کر جی کو بہلاتا ہے سورج
تپش جب حد سے بڑھتی ہے بدن کی
سمندر میں اتر جاتا ہے سورج
مٹانے بھوک اپنی منہ اندھیرے
اندھیروں کو نگل جاتا ہے سورج
سویرے بدلیاں جب چھیڑتی ہیں
طلوع ہونے سے شرماتا ہے سورج
سر غرب بجھا دیتا ہے خود کو
صبح ہوتے ہی جل جاتا ہے سورج
زمیں کو روشنی دینے نہ جانے
کہاں سے روشنی پاتا ہے سورج
مہینوں تک کہیں روپوش رہ کر
زمیں پر برف برفاتا ہے سورج
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے زمیں پر
مہینوں آگ برساتا ہے سورج
سویرے ؔخواہ مخواہ مجھ کو اٹھانے
مری کھڑکی میں آ جاتا ہے سورج