سورج چڑھا تو دل کو عجب وہم سا ہوا

سورج چڑھا تو دل کو عجب وہم سا ہوا
دشمن جو شب کو مارا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا


بکھری ہوئی ہے ریت ندامت کی ذہن میں
اترا ہے جب سے جسم کا دریا چڑھا ہوا


زلفوں کی آبشار سرہانے پہ گر پڑی
کھولا جو اس نے رات کو جوڑا بندھا ہوا


نکلا کرو پہن کے نہ یوں مختصر لباس
پڑھ لے گا کوئی لوح بدن پر لکھا ہوا


اک شخص جس سے میرا تعارف نہیں مگر
گزرا ہے بار بار مجھے دیکھتا ہوا