سقوط شادمانی
مسرت کے اس لمحۂ بے کراں میں کہ ہم دونوں لیٹے ہوئے گھاس پر نیلے آکاش کو دیکھتے تھے
تمہیں یاد ہوگا کہ تم نے کہا تھا
خوشی شادمانی کی کتنی بڑی اور حسیں سلطنت میرے زیر نگیں ہے
یہ مخمل سا توشک نما سبزہ
ہوا کا یہ کیف خماریں
چمکتی ہوئی دھوپ کے گرم پیوست بوسے
فلک کی فراخی
فضاؤں کا یہ مہربانہ رویہ
اور ان سب سے بڑھ کر تمہاری محبت کا سرشار و پرشور احساس
خدایا مسرت کا یہ لمحۂ بے کراں مجھ کو پاگل نہ کر دے
مگر آج جب ہم وہیں اپنے مانوس گوشے میں پنہاں
اسی گھاس تختے پہ لیٹے ہوئے نیلے آکاش کو دیکھتے ہیں
تو محسوس ہوتا ہے جیسے
زمین صرف کانٹے اگاتی ہے
چمکتی ہوئی دھوپ پر تیر ہی تیر ہیں
آسماں ایک پتھر کی سل کی طرح سینہ پر بوجھ ہے
ہواؤں سے دم گھٹ رہا ہے
خوشی شادمانی کی وہ سلطنت لٹ چکی ہے
اور ہم دونوں دہلی سے بھاگے ہوئے دو مغل شاہزادے
کسی اجنبی غیر معروف بستی کی کہنہ سرائے میں
بے خواب کروٹ بدلتے
بس اس تاک میں ہیں کہ کب آنکھ جھپکے اور ہم اپنے ساتھی کے سینہ میں خنجر اتاریں