سنہرا پرندہ
وہ اگر چاہتا تو بہت آسان موت مر سکتا تھا۔۔۔۔ ہاتھ کی رگ کاٹ کر دھیرے دھیرے موت کو محسوس کرسکتا تھا یا پھر پسٹل کی ایک گولی یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے سرانجام دیتی ۔۔۔لیکن خود کشی کے یہ طریقے اسے بالکل پسند نہیں آئے ، نشہ آور ادویات میں امکانات کم تھے ، عین ممکن تھا کہ جب وہ کمرے میں موت کی پوری تیاری سے بیٹھا ہو ، ایک عددنوٹ بھی تحریر کرچکا ہو جو اس کی جان سوزی کے حوالے سے ہواور کچھ اس طرح سے ہو کہ میں اس لئے خود کشی کررہا ہوں کیونکہ اس بھیڑ بھاڑ والی دنیا میں بھی تنہائی محسوس کرتا ہوں اور اس تنہائی بھری اداسی میں مجھے اپنا پالتو کتا شیری یاد آتا ہے جو پچھلے ہفتے پڑنے والی سخت سرد ی سے بیمار ہوکر مرگیا اور یہ نوٹ لکھتے وقت وہ ہنسی سے دوہرا ہوجائے کہ اس جیسا انسان جو تدفین میں محض اس لئے نہیں جاتا کہ ُاس سے مسکین سا منہ نہیں بنایا جاتا اور نا ہی آنکھ میں آنسو آتے ہیں ، ایک عام سے بات ہوتی تھی اس کے لئے کہ فلاں راہی عدم گیا، جیسے روز صبح کی واک کرنے یا شیو کرنے ، ناشتے کے بعد دن کی پہلی سگریٹ جلاتے ہوئے اخبار کی شہ سرخیوں پر تبصرہ کرنے جتنی عام سی بات۔۔۔بھلا ایسے انسان کو ایک کتے کی موت سے کیا فرق پڑسکتا تھا۔ اسٹریو پر جگجیت سنگھ کی پرسوز اور ٹھری ہوئی آواز میں غالب کی کوئی غزل ہوتی جو مرنا آسان کردیتی ۔ بیڈ کے سرہانے پڑی میز پر مختلف خواب آور گولیاں سجانے کے بعد ایک کے بعد ایک نگل کر اب موت کے انتظار میں ہو تا۔ دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوتی اور موت بس آنا ہی چاہتی ہو تی اور ٹھیک اسی وقت آکر کوئی اسے بچالیتا تو اس کو یہ طریقہ کار بھی پسند نہیں آیا تھا۔
ہاتھ کی رگ کاٹ کر یا خود کو شوٹ کرنے میں بھی ایک مسئلہ تھا ، وہ بہت نفاست پسند انسان تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ جب کوئی پولیس کو اطلاع دے کہ پوش علاقے میں بنے ایک فلیٹ سے شدید نا گوار بو اٹھ رہی ہے۔۔۔جو بے شک ایک ٹھنڈے اور سڑتے ہوئے جسم سے ہی اٹھ سکتی ہے ، جو کبھی حیات تھا اور سانس لیتا اور دنیا کی رنگینیاں دیکھتا تھا لیکن اب اس کا جوان اور سرخ خون جو کئی دن گزر جانے کے بعد سیاہ مائل ہوکر جم چکا ہو، جس پر مکھیاں بھنبھناتی ہوں۔۔۔۔ اور وہ مرنے کے بعد بھی مکھیوں کی موجودگی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔۔۔اورپولیس والے کمرے کا دروازہ توڑ کر جب فلیٹ میں داخل ہوتے ، وہ منہ پر رومال رکھ لیتے کہ وہاں جو بو ہونی تھی وہ ناقابلِ برداشت ہونی تھی تو یہ سب طریقے اس کی نفیس طبیعت پر گراں گزرتے تھے ۔
اُس کا نام ارمان تھا ، اسے اونچائی سے ڈر نہیں لگتا تھااور شائد ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب وہ کسی اونچے درخت، کھمبے یا دیوار سے چھلانگ نہ لگاسکا ہو۔وہ ہمیشہ بس پھلانگتا رہتا۔۔۔۔۔۔ وہ قوانینِ فطرت سے واقف تھا ۔۔۔۔۔ اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ جتنی بھی اونچی چھلانگ لگائے لیکن کشش ثقل اسے زمین پر پٹخ ہی دے گی۔۔۔۔۔کشش ثقل ہمیشہ اسے پرندے کی طرح اڑنے سے روک کر زمین کی جانب کھینچ لیتی تھی ۔
اُسے ہر کوئی سنہرا پرندہ کہتا تھا۔ ایک ایسا پرندہ نما انسان جو بس اڑنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ۔۔۔۔شاید وہ اڑنا نہیں چاہتا بلکہ وہ بس کسی اونچے درخت یا دیوار سے چھلانگ لگاکر اپنی حدجاننا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ وہ ایک اونچے درخت پر چڑھ کر ایک پرندے کی طرح زمین کی جانب دیکھتا ہے ۔ اور اونچائی سے دنیا زیادہ بہتر اور وسیع معلوم ہوتی ہے۔اس کے جسم میں کچھ تو ہڈیاں، پٹھے ، خون اور رگیں تھیںاور اس کے ساتھ کچھ تھا تو دھاتوں کے ٹکرے تھے جو ہر چھلانگ کے بعد اس کے جسم کا حصہ بن جاتے تھے۔۔۔۔۔۔اگر اس کا ایکسرے لیاجا تا تو اس کا پنجر ایک ایسا خالی پنجرہ محسوس ہوتاجس میں کوئی قید ہے ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ’’ یہ ایک بے چارہ سنہرا پرندہ ہے ‘‘۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسے حادثات اور چوٹ کے نشانات پسند ہیں۔۔۔۔۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ٹھیک کررہا تھااور نیوٹن بھی صحیح تھااور وہ ننھا بچہ کسی شاخ سے ٹوٹے سیب کی طرح ہمیشہ گرتارہے گا ۔
بائبل میں فرشتوں کی کہانیاںاُسے بچپن سے مسحور کرتی تھیں۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کوئی دھتکارا ہوا فرشتہ ہے جسے کسی جرم کی پاداش میں آسمان سے زمین کی جانب پھینک دیا گیا ہے۔۔۔۔۔یہ سوچ کر اُسےاردگرد کی چیزیں ہلکی اور سطحی محسوس ہونے لگتیں۔ ۔۔۔پھر ایک وقت آیا کہ اُسے انسانوں سے زیادہ پرندے دلچسپ اور حیرت انگیز محسوس ہونے لگے۔ وہ انہیں گھنٹوں فضاء میں پرواز کرتے ۔۔ گاتے ۔۔دانا چگتے ۔۔۔بیٹ کرتے اورملن کرتے دیکھتا رہتا ۔۔۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے جب وہ سمجھتا تھا کہ اپنی نوعیت کا واحد انسان ہے ۔ پھر اس نے غور سے آس پاس رہنے والے لوگوں کا مشاہدہ کیا اور یہ جانا کہ ان کے بھی نادیدہ پنکھ ہیں ۔ ۔۔۔۔لیکن وہ اس حقیقت سے واقفیت نہیں رکھتے۔۔۔شائد ان کے اندر اڑنے کی خواہش جنم نہیں لیتی اور وہ اسی بدقسمتی کے ساتھ دفن ہوجاتے ہیں ۔۔۔ وہ اکثر بڑبڑاتا ’’ پروں کے ہوتے ہوئے اڑنے کی خواہش نہ ہونے سے بڑی بدنصیبی کوئی اور نہیں ہے‘‘۔
ہر چیز جس کو اوپر کی جانب اچھالاجائے، وہ واپس پلٹتی ہے، جیسے ایک سکہ، غبارہ، انسان ، جانور یا پرندہ ۔۔۔۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس حجم، ماہیت یا وزن کی شے ہے۔لیکن وہ واپس دھرتی کی جانب لوٹ آتی ہے۔۔۔۔کششِ ثقل اسے مجبور کردیتی ہے۔ وہ اکارس ہو، انسان ہو یا شیطان، اپنے اصل کی جانب لوٹتے ہیں۔۔۔۔ آسمان سے دھرتی پر او ر پھر دھرتی سے اور نیچے اور وہ یہ بات بخوبی سمجھ گیا تھا کہ عظیم واقعات چھوٹی اور معمولی چیزوں سے جنم لیتے ہیں۔ اس ادراک کے بعد بھی وہ چھلانگ لگا تارہا۔یہ دیکھے بغیر کہ روشندانوں، ٹہنیوں اور تاروں پر بیٹھے پرندے اسے تعجب سے دیکھتے ہیں۔ اس عجیب عادت سے مجبور ہوکر ایک دن اس کے والدین نے اسے کمرے میں بند کردیا۔ جہاں سے وہ نکل نہیں سکتا تھا۔ اس نے کمپیوٹر ٹیبل کو کتابوں کی الماری کے ساتھ جوڑکر چھلانگ لگانے کی جگہ پیدا کرلی اور تب اس نے چھلانگ لگائی اور اپنا سر فرش سے ٹکرا کر زخمی کرلیا۔ پورے کمرے میں پاگلوں کی طرح دوڑتا رہا۔ جب آزادی کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو غصے میں آکر لکڑی کے فریموں سے سر کو ٹکرا کو زخمی کرلیا۔ اصل میں وہ آزادی چاہتا تھا ۔ آخر کار ماں باپ کو مجبوراً اس جبری قید سے آزاد کرنا پڑا۔۔۔۔شائد وہ بھی یہ جان گئے تھے کہ وہ ایک ایسا آزاد پرندہ ہے جس کو قید نہیں کیا جاسکتااور جو یہ کر رہا ہے اسے کرنے دیا جائے۔
جب وہ تیرہ سال کا ہوچکا تو اس نے بہت اونچے درخت سے چھلانگ لگائی جس سے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو کافی نقصان پہنچا۔اب وہ ایک ٹوٹا ہو ا سنہرا پرندہ تھا۔ایک ایسا پرندہ جس نے اپنی محدود پرواز اور حوصلے سے زیادہ اڑان بھری اور زخمی ہوگیا۔ اُنھوں نے اسے اٹھایا اور اس کے اکھڑے ہوئے پروں کو ٹھیک کرنے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔ نازک پرندوں کی مانند ہڈیوں کو جوڑنے کے بڑے جتن کیےاور پھر تھک ہار کر اسے ایک وہیل چئیر دے دی۔اب وہ دھات اور پہیوں کا مجموعہ بن چکا تھا، کبھی نہ اڑنے کے قابل لیکن لامحدود۔
انہوں نے اس کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اورآرزوئوں کوایسے ہی بے یارو مدد گار چھوڑ دیاتھا۔۔۔۔۔اب وہ کمرے کی کھڑکی سے اڑتے ہوئے آزاد پرند وں کو ایک حسرت سے دیکھتا رہتا ۔اسے لگتا کہ درخت پر بیٹھے پرندے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ہنس رہے ہیں اور ایسے میں وہ اپنا چہرہ نیچے کرلیتا۔۔۔ ان کو اپنے اوپر ہنسنے دیتا۔۔۔۔شائد اسے بھی یقین ہوگیا تھا کہ وہ کبھی بھی اڑ نہیں سکے گا۔
اب وہ ۲۴فیصد دھات۔۔۔۴۷ فیصد ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا مجموعہ اور اور ۷ فیصد پیرا لائز تھا۔۔۔۔ وہ۱۰۰ فیصد عزم اور اور ایک نابھولنے والاخواب بن چکا تھا۔۔۔۔ درحقیقت وہ کبھی دوڑنا یا اڑنا نہیں چاہتا تھا اس نے یہ کبھی چاہا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔حقیقت میں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ حقیقت میں وہ ہوائی موت سے ڈرتا تھا ۔۔۔ اونچا نیلا آسمان اور کوئی بھی چیز اس کو مار نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔ اگر وہ دور آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گیا تو وہ نیچے کیسے اترے گا ۔یہی ڈر تھا جو اسے اندر ہی اندر مارے ڈال رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ انسانوں کو پرندوں کی طرح پرواز کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہے ۔۔۔۔ مگر شائد وہ قانونِ فطرت کو للکارنے اور اونچائی سے نیچے گرتے رہنے کے لئے پیدا ہوا تھا ۔
وہ اپنے ستائیسویں جنم دن پر شہر کی سب سے بلند عمارت کی چھت تک پہنچا۔۔۔۔۔۔ ہزاروں عمارتوں میں سے ایک شہر کی بلند ترین عمارت ا ور وہ وہاں محض ایک منظر دیکھنے کے لئے پہنچا تھا، دنیا پر زیادہ اونچائی سے اور بہتر طریقے سے نظر ڈالنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے تھے ’’یہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔۔۔ کبھی چل نہیں سکے گا‘‘ ۔اسے صرف ایک قدم اٹھا نا تھا ان کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے اور تب اس نے قدم بڑھایااور اپنے نادیدہ پروں کو تولتے ہوئے چھلانگ لگادی اورنیچے گرتے وقت اس نے اپنی آنکھیں بند نہیں کریں اوراپنے ہاتھوں کو ایک آزاد پرندے کی طرح پھیلا کر خود کو ہوائوں کے حوالے کردیا ۔