سحرِ عدم
دھوئیں کا مرغولا اُس کے خیالات کی طرح دھیرے دھیرے فضاء میں گھومتا رہا اور پھر سرعت سے غائب ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شائد غائب ہوگیا کا لفظ غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔ نظر وں سے اوجھل ہوگیا مناسب لفظ ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اوجھل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے یہ کمرہ اور اس کے باہری طرف جو کھڑکی کھلتی ہے اس سے پرے کہیں ستاروں بھرا آسمان اور روشن چاند ہے۔۔۔۔۔۔ جس کا ذکر وہ اکثر اپنی بیوی سے سنتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ دیکھ نہیںسکتا کیونکہ باہر اندھیرے کی حکمرانی ہے۔
تو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح وہ مان لیتا ہے کہ روشنی موجود ہے لیکن ابھی نظروں سے اوجھل ہے ۔۔۔۔۔۔ اُس نے پڑوس سے آتی بچے کی رونے آوازسنی اور سوچنے میں محو ہوگیا۔۔۔۔۔ یہ خیالات بھی پیچھا نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔۔۔ایک بعد ایک آتے جاتے ہیں اور دماغ کے کینوس پر پھیلتے جاتے ہیں۔ یہ کائنات بھی تو پھیل رہی ہے ۔ اُس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جس کی کوکھ بھی پھیلتی چلی جارہی ہے ۔
اُ س کے ذہن میں بیتھوون کی نویں سمفنی چلنے لگتی ہے ۔
اور وہ بچوں کی ریں ریں کے ساتھ اس سمفنی کو جوڑ کر ایک نئی موسیقی کو جنم دیتا ہے!
وہ دل ہی دل میں اس موسیقی سے لطف اندوز ہورہا ہے اور کوکھ پھیلتی جارہی ہے !
چند لمحوں بعد ہی وہ اس شغل سے ا ُکتا گیااور شال کو ٹھیک کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ وہ اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ، سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چاروں طرف اندھیرے کی حکمرانی ہے ۔۔۔۔ اُسے کچھ نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔ اس لئے وہ فرض کرتا ہے کہ آسمان پر ایک چاند اور کئی ستارے موجود ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ ستاروں پر اپنا دھیان لگانے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اُ س نے کہیں پڑھا تھا کہ وہاں پر نقشے موجود ہیں۔۔۔۔۔ آسمان پر ستاروں کا ایک جھرمٹ ہے جو بھالو جیسا لگتا ہے ۔۔۔۔۔ کچھ معاشروں میں اسے گریٹ بئیر کہتے ہیں۔۔۔۔۔ ۔ تو وہ بھی تصور کرتا ہے اور ان دیکھے لاکھوں ستاروںکو جوڑ کرلاتعدادنومولود بچوں کا تصور کرتا ہے او ر تھوڑی دیر بعد واقعی وہ تصویریں بن جاتی ہیں ۔
اُس کی آنکھیں مسرت سے چمکنے لگتی ہیں اور سیاہ آسمان کو دیکھتے ہوئے اُسے اکارس کی یاد آتی ہے۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اکارس کے پروں کو آگ نے جکڑ لیا تھا جب وہ سورج کے نزدیک پہنچنے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اکارس ، بیچارہ اکارس ۔۔۔۔۔ وہ آزادی کی تلاش میں بادلوں سے بھی پرے گیا تھا۔ جیسے ہی وہ بلندی پر پہنچاہوگا۔۔۔۔۔ ہائپو تھرمیا نے اسے دھیرے دھیرے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ اس کا جسم کانپنے لگاہوگا۔۔۔۔۔ اُس پر بھی کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے پروں کے کونوں پر برف جم گئی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ خون ٹھنڈی برف میں تبدیل ہونے لگا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ لیکوئیڈ نائٹروجن اس کی شریانوں کے ذریعے سے اس کے دل تک پہنچنے لگا ہوگا اور ایک آخری اور مشکل سانس کے ساتھ اس کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ گئے ہوں گے۔
اکارس سورج تک پہنچنے کی کوشش میں جان سے گیا ؟
لیکن اُ س کے چاروں جانب اندھیرا ہے !
اکارس مرچکا ہے۔۔۔۔۔ اس کی خواہش مرچکی ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ امر ہوگیا۔
میں بھی مرجاوں گا، لیکن اندھیرے قائم رہیں گے اور خیالات مرتے رہیں گے!
اُس کی بیوی نیند سے جاگ گئی ہے ، اُ س کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ، بے بسی اور درد ہے اور وہ اپنے آپ کو کوسنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ضرورت تھی اس بیچاری کو اس اذیت میں مبتلا کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔ بچہ بدستور روئے جارہا ہے۔۔۔۔۔۔لگتا ہے اس کی ماں یا تو سورہی ہے یا مرچکی ہے ، ہاں شائد مرچکی ہے!
میں سوچتا ہوں شائد پیدا ہونا کسی جرم کی سزا ہے !
کیونکہ ہر بچہ روتے ہوئے آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ شائد وہ آنا نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ دنیا میں بہت بھوک اور اندھیرا ہے!
اور پھر وہ روتے ہیں، دودھ پیتے ہیں اور روتے ہیں اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا !
’’کیا میں تمہارے لئے دوائی لادوں؟ ‘‘
وہ سر نفی میں ہلاکر منع کردیتی ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ ہمیشہ یہی کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جانتی ہے کہ ُاس کی شوہر کی جیب آٹے کے کنستر کی طرح خالی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک اچھی اور سگھڑ بیوی کی طرح گھریلو ٹوٹکوں سے بیماریوں کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ نہیں جانتی کہ اس کی یہ حالت بیماری نہیں بلکہ کڑوا سچ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ کروٹ لے کر سونے کی کوشش کررہی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ درد اس کو سونے نہیں دیتا اور وہ سوچتا ہے کہ اگر یہ بچہ دنیا میں آیا تو پتہ نہیں کیا ہوجائے گا!
وہ مستقبل کا سوچتا ہے ، جب وقت آئے گا تو بیوی کو اسپتال لے جانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر اُسے وحشت ہونے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسپتال کی پرانی اور بوسیدہ عمارت اس کے دماغ کے کینوس پر پھیلنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ فینائل کی کڑوی مہک ذہن کے کسی گوشے میں کروٹیں لینے لگتی ہے اور اُ س کا منہ کڑواہٹ کو برداشت نہیں کرپاتا اور تھوک کی شکل میں اگل دیتا ہے ۔
اُ س کا پیٹ جلنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔ شائد یہ بہت زیادہ سگریٹ پینے کی وجہ سے ہے ۔۔۔۔۔ وہ اپنے ذہن میں اچھی چیزیں سوچنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام گوتم اور لڑکی ہوئی تو اس کا نام کنول کھوں گا اور ذہن گوتم اور کنول کی تکرار کرنے لگتا ہے۔
دنیا کو ایک اور گوتم بودھ کی ضرورت ہے!
کیا نروان روٹی ، کپڑا اور مکان سے کسی کو آزاد کرسکتا ہے اور وہ ہنسنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہنستے ہنستے اُس کا سانس پھول جاتا ہے اور آنکھیں آنسووں سے دھندلاجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ گوتم بودھ کو جنگل میں ایک درخت کے نیچے ، کھلے آسمان تلے نروان ملا تھا اور اُ س کے چاروں طرف دیواریں ہیں ۔ اس کے اندر بھی دیواریں ہیں۔۔۔۔۔ کمرے کی دیواریں سیمنٹ اور بجری سے بنی ہیں اور اندر کی دیواریں لاتعداد خواہشوں کی لاشوں سے اور وہ کھڑکی کے باہر دیکھتا ہے ۔
وہاں سیاہی ہے اور اندر بھی سیاہی ہے !
اور یہی سوچتے سوچتے وہ ایک درخت میں تبدیل ہونے لگتا ہے ۔ جس کے اوپر سیاہ آسمان ہے جہاں گدھ منڈلا رہے ہیں اور شاخوں پر پھلوں کی جگہ پستان لٹکے ہیں ۔ اُسے درخت سے انسان بننے میں تھوڑا ہی وقت لگا اور وہ خود کو کوسنے لگا کہ خیالات بھی کتنی جلدی ختم ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔تب وہ سگریٹ کی راکھ کو جھاڑتا ہے اور سوچتا ہے کہ ان بھوکے بچوں کے لئے کچھ کیا جانا چاہیے ۔ یہی سوچتے سوچتے وہ سگریٹ کو ہونٹوں کے قریب لاتا ہے۔ زور لگاکر پھیپڑوں تک دھواں کھینچ کر ناک کے راستے چھوڑ دیتا ہے۔
وہ ان کے لئے بس یہی کرسکتا تھا!