سنا کہ خوب ہے اس کے دیار کا موسم
سنا کہ خوب ہے اس کے دیار کا موسم
دلوں پہ چھانے لگا پھر خمار کا موسم
کبھی کبھی تو بدن کو پتہ نہیں چلتا
کہ باغ روح میں کب آیا پیار کا موسم
میں اس گلاب کو ناراض کر نہیں سکتا
بھلے ہی روٹھ کے جائے بہار کا موسم
یہ خوف دل میں ابھرتا ہے درد کی صورت
بدل نہ جائے کہیں اعتبار کا موسم
میں خود بھی ملنے کو بے چین ہوں یہ جب سے سنا
مری تلاش میں ہے انتظار کا موسم
تمام آب و ہوا میں گلال بکھرا ہے
کہ رنگ لایا ہے اس کے نکھار کا موسم
کھلے ہوئے ہیں امیدوں کے پھول دل میں مگر
گزر نہ جائے کہیں انتظار کا موسم
بڑے مزے سے ابھی تک گزر رہے ہیں دن
اسی طرح رہے قائم خمار کا موسم
یہاں کبھی بھی خزاں کا گزر نہیں ہوگا
یہاں ہمیشہ رہے گا بہار کا موسم
سکون قلب میسر ہو خواب پورے ہوں
کبھی تو آئے دل بے قرار کا موسم
کسی طرح بھی نہ انکار کی ہے گنجائش
کہ ہے عروج پہ قول و قرار کا موسم
وہ اچھے اچھوں کو خاطر میں اب نہ لاتا ہے
کہ ان دنوں تو ہے اس کے نکھار کا موسم