سکوت شر سے پگھلتے ہیں واقعات بہت
سکوت شر سے پگھلتے ہیں واقعات بہت
ہمارے شہر پہ بھاری ہے آج رات بہت
دعائیں مانگ کے لوٹے ہیں ساحلوں سے لوگ
بساط نور پہ زندہ ہے کائنات بہت
میں خود کو ڈھونڈنے نکلا تو دیکھتا کیا ہوں
حصار باندھ کے چپ ہیں وہ حادثات بہت
چلا ہوں آگ لگانے میں گھر کے جنگل کو
دراز ہو گئے دنیا میں اس کے ہاتھ بہت