سکوں تلاش نہ کر آرزو کے دیوانے

سکوں تلاش نہ کر آرزو کے دیوانے
جو زندگی نے دیا ہے وہ زندگی جانے


اس اہتمام سے اکثر اٹھے ہیں پیمانے
کہ بوند بوند کو میں جانوں یا خدا جانے


دکھے ہوئے دل آدم میں ہے امید کی دھوم
ہیں ایک بات سے پیدا ہزار افسانے


چراغ رہ سے غرض ہے نہ نقش پا کی تلاش
یہ رہروی کوئی ناکردہ راہ کیا جانے


کدھر کو رخ کرے یا رب مرا مذاق سجود
کہ آج قبلۂ دل کعبہ ہے نہ بت خانے


میں انتہائے مسرت کو زندگی کر دوں
اگر نظام تمنا مرا کہا مانے


سنبھل اے ہوش ذرا کل کی فکر کر ساقی
چھلک نہ جائیں کہیں بھر چکے ہیں پیمانے