کبھی سرور بے خودی کبھی سرور آگہی
کبھی سرور بے خودی کبھی سرور آگہی
حقیقتوں کا واسطہ عجیب شے ہے زندگی
ترا خیال دے گیا ہے آسرا کہیں کہیں
ترا فراق حوصلے بڑھا گیا کبھی کبھی
اسی میں کچھ سکون ہے شعور غم کا ساتھ دیں
یہی خوشی کی بات ہے چلے چلیں خوشی خوشی
ہزار ٹوٹتے گئے طلسم روپ رنگ کے
مگر نہ چین سے رہا مرا شعار بت گری
چمن میں کون دیکھیے سحر کی تاب لا سکے
یہ رات بھر کی اوس میں نہا گئی کلی کلی
گزر گئے اسی طرف سے ارتقا کے قافلے
مگر اسی دیار میں لٹا خلوص آدمی
وہ میرا آشیاں ہی کیا تمام آگ تھی لگی
یہی کہو کہ بچ گئی چمن کی پھول پنکھڑی
قریب صبح کیا کہوں عجیب اک ہوا چلی
جھکی ہر ایک شاخ گل کلی کی آنکھ لگ گئی
ہے چاک گل کا ماجرا جراحتوں کا سلسلہ
وہ زخم پھر نہ بھر سکا گری جہاں سے پنکھڑی
شہابؔ نکتہ سنج نے رکھا ہے سینت سینت کے
سلیقۂ کلام کی جو ساکھ ہے رہی سہی