سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج

سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج
شکست خواب ہے ہر شخص کا مقدر آج


ہے وضع حال مری کیوں یہ بد سے بد تر آج
امیر شہر کے بدلے ہوئے ہیں تیور آج


ہر ایک شخص ہے اپنے حصار میں محصور
ہے سب کے درپئے آزار وہ ستم گر آج


کیا ہے گردش دوراں نے در بدر سب کو
جو سر میں پہلے تھا وہ پاؤں میں ہے چکر آج


سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں اپنا
وہی ہے دشمن جاں میرا سب سے بڑھ کر آج


فصیل شہر کے اندر تھے کتنے اہل ہنر
نہیں ہے جن سے شناسا کوئی بھی باہر آج


وہ درس لیتے نہیں جنگ کربلا سے کوئی
جو صف شکن تھے وہ ہیں دشمنوں سے ششدر آج


وہ قوم کیسے ترقی کرے گی دنیا میں
نہیں ہے جس کا کہیں کوئی ایک رہبر آج


بکھر کے رہ گیا خود جن کا اپنا شیرازہ
سمجھ رہے ہیں کہ ہیں وقت کے سکندر آج


اگر محاسبہ اپنا کریں تو پائیں گے
نہیں ہے ہم سے جہاں میں کوئی بھی بد تر آج


جو اپنے ہاتھ سے کشتی جلاتے تھے اپنی
نہیں ملیں گے کہیں ایسے وہ قلندر آج


دکھا رہا ہے مجھے سبز باغ جو برقیؔ
وہ لے کے پھرتا ہے کیوں آستیں میں خنجر آج