سخن کی دل کشی سوز دلی لگتی نہیں مجھ کو

سخن کی دل کشی سوز دلی لگتی نہیں مجھ کو
یہ لفاظی تو جی کی بیکلی لگتی نہیں مجھ کو


یہ سچ ہے قوت تسخیر ہوتی ہے محبت میں
ظفر یابی مگر حرف جلی لگتی نہیں مجھ کو


کسی شے کی کمی لگتی ہے ان افسردہ راہوں میں
اسی کا شہر لیکن وہ گلی لگتی نہیں مجھ کو


خزاں بختی میں کب شاخ چمن پر پھول کھلتے ہیں
ہنسی احباب کی زندہ دلی لگتی نہیں مجھ کو


بظاہر باغ و بازار و مکاں سب لہلہاتے ہیں
یہ ہریالی مگر پھولی پھلی لگتی نہیں مجھ کو


کسی آب رواں پر خوب صورت ناؤ کاغذ کی
وہی دنیا ہے لیکن کیوں بھلی لگتی نہیں مجھ کو


ملمع کاریاں اشیا میں بھی انسان میں بھی ہیں
زمیں فطرت کے سانچے میں ڈھلی لگتی نہیں مجھ کو


قلندر خانقاہ و مدرسہ میں مست ہے لیکن
یہ مستی فقر بوبکر و علی لگتی نہیں مجھ کو