صبح
سنا ہے رات کے پردے میں صبح سوتی ہے
سویرا اٹھ کے دبے پاؤں آئے گا ہم تک
ہمارے پاؤں پہ رکھے گا بھیگے بھیگے پھول
کہے گا اٹھو کہ اب تیرگی کا دور گیا
بہت سے کام ادھورے پڑے ہیں کرنے ہیں
انہیں سمیٹ کے راہیں نئی تلاش کرو
نہیں یقین کرو
یوں کبھی نہیں ہوتا
سویرا اٹھ کے دبے پاؤں
خود نہ آئے گا
نہ ہو جو شمع
تو ہرگز سحر نہیں ہوتی
اگر شعاعوں کے بھالے نہ ہوں
ہمارا نصیب
تو نہریں دودھ کی خوابوں میں بہتی رہتی ہیں
زمین گھوم کے سورج کو چومتی ہے ضرور
شعاعیں پھٹتی ہیں
لیکن سحر نہیں ہوتی