صبح نو آ گئی تیرگی مٹ گئی شور ہے ہر طرف انقلاب آ گیا
صبح نو آ گئی تیرگی مٹ گئی شور ہے ہر طرف انقلاب آ گیا
مجھ کو ڈر ہے اندھیرا کوئی رات کا منہ پہ ڈالے سحر کی نقاب آ گیا
حسن کی یہ ادا بھی ہے کتنی حسیں اک تبسم میں سب کچھ ہے کچھ بھی نہیں
اپنی اپنی سمجھ اپنا اپنا یقیں ہر سوال نظر کا جواب آ گیا
بزم ہستی میں ہنگامہ برپا کیے کوئی گیتا لیے کوئی قرآں لیے
میں بھی ساقی کے ہاتھوں سے پائی تھی جو لے کے اپنی سنہری کتاب آ گیا
فطرت حسن کو کون سمجھے بھلا گہہ عطا ہی عطا گہہ جفا ہی جفا
گاہ تقصیر کی اور ہنسی آ گئی گاہ سجدے کیے اور عتاب آ گیا
زیست کی تلخیاں الاماں پھر بھی وہ چھین پائیں نہ میرے لبوں سے ہنسی
عشق تو نے دیا وہ غم شادماں ہو کے ناکام میں کامیاب آ گیا
گردش روز و شب نے نہ جانے کہاں کی نکالی ہے ملاؔ سے یہ دشمنی
اس نے ساغر اٹھایا سحر ہو گئی اس نے ساغر رکھا ماہتاب آ گیا