سوتے سوتے چونک پڑے ہم خواب میں ہم نے کیا دیکھا

سوتے سوتے چونک پڑے ہم خواب میں ہم نے کیا دیکھا
جو خود ہم کو ڈھونڈ رہا ہو ایسا اک رستا دیکھا


دور سے اک پرچھائیں دیکھی اپنے سے ملتی جلتی
پاس سے اپنے چہرے میں بھی اور کوئی چہرہ دیکھا


سونا لینے جب نکلے تو ہر ہر ڈھیر میں مٹی تھی
جب مٹی کی کھوج میں نکلے سونا ہی سونا دیکھا


سوکھی دھرتی سن لیتی ہے پانی کی آوازوں کو
پیاسی آنکھیں بول اٹھتی ہیں ہم نے اک دریا دیکھا


آج ہمیں خود اپنے اشکوں کی قیمت معلوم ہوئی
اپنی چتا میں اپنے آپ کو جب ہم نے جلتا دیکھا


چاندی کے سے جن کے بدن تھے سورج کے سے مکھڑے تھے
کچھ اندھی گلیوں میں ہم نے ان کا بھی سایہ دیکھا


رات وہی پھر بات ہوئی نا ہم کو نیند نہیں آئی
اپنی روح کے سناٹے سے شور سا اک اٹھتا دیکھا