سوچوں میں لہو اچھالتے ہیں
سوچوں میں لہو اچھالتے ہیں
ہم اپنی تہوں میں جھانکتے ہیں
دنیا کی ہزار نعمتوں میں
ہم ایک تجھی کو جانتے ہیں
آنکھوں سے دکھوں کے رنگ آخر
سارس کی اڑان اڑ گئے ہیں
ساون کی طرح ہمیں بھگو کر
بادل کی طرح گزر گئے ہیں
یوں بھی ہے کہ پیار کے نشے میں
کچھ سوچ کے لوگ رو پڑے ہیں
وہ دکھ تو خوشی کے باب میں تھے
یہ دکھ جو طلوع ہو رہے ہیں
جو کچھ بھی ہے دل کے آئنے میں
سب تیری نظر کے زاویے ہیں
بہتے ہوئے دو بدن سمندر
ہونٹوں کے کنارے آ ملے ہیں
کچھ بھی تو نہیں ہے پاس خاورؔ
بس ایک انا ہے رت جگے ہیں