سلگتی راکھ
„شنکر۔شنکر۔شنکر۔ اف! بھگوان یہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟“ شانتی کو اپنے آپ پر غصّہ آرہا تھا۔ مگر اس کی یہ سوچ ندی کی چنچل دھارا کی طرح رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔
„ میں اس کے خیال کو دل سےنکال پھینکنا چاہتی ہوں لیکن شاید اس کا یہ خیال بھی اسی کی طرح شوخ ہےکہ بس اک دم میرے دماغ میں گھسا آرہا ہے۔ یا میرا یہ دل ہی اب مجھ سے غدّاری کرنے لگاہے۔ یہ خود ہی سرکش ہورہا ہے۔اسے دیکھتے ہی اس کی دھڑکنیں کیوں تیز ہونے لگتی ہیں۔ کہیں شنکر نے اس پر کوئ جادو تو نہیں کردیا۔چور جادو گر۔اگر کسی نے اس دل میں چھپےہوۓ چور کوپکڑلیا تو میری کتنی بدنامی ہوگی۔
شنکر! تم میرے دل میں کیوں گھسےچلے آرہے ہو؟میں شانتی ہوں اورمیں نےدھیرے دھیرے شانت (خاموش ) رہنا سیکھ لیا ہے۔
میں اپنےاس من مندر میں تو اب تک اس دیوتا کی مورتی بٹھاۓ ہوۓ ہوں جس کی شکل و صورت زمانہ نے تو مٹادی ہےمگر سماج ابھی تک مجھے اس کے چرنوں کی داسی بنے رہنے پر مجبور کر رہا ہےاور میں بھی ایک آدرش بھارتی ناری کی طرح اسکا حکم مانے جارہی ہوں۔ لیکن اب شنکر شاید اس بے جان مورتی کی جگہ اپنی ہنستی بولتی تصویر بٹھانا چاہتا ہے۔
پتہ نہیں اسے میرے بارے میں کچھ معلوم بھی ہے یا نہیں ؟منجھلی نے اسےکچھ بتایا بھی ہوگا یا نہیں ؟اس کو بھی لگتا ہوگا کہ میری زندگی میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ لیکن کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہوامیرے ساتھ اب تک اور نہ اب ہورہا ہے۔ زندگی تو جیسے وہ اجاڑ جنگل ہے جس میں کوئ ہریالی نہیں یا ایک ایسا درخت ہےجس میں نہ کوئی پھول ہے اورنہ پھل۔کاش شنکر اس اجاڑ بن کو گلزار بنا سکتا۔
کاش میں اپنی زند گی کی کتاب اس کے سامنے کھول کر رکھ سکتی۔ماں کا پیار کسےکہتےہیں یہ تو میں نے جانا ہی نہیں۔ بابوجی اور چھوٹی بہن کی دیکھ ریکھ میں اپنا کنوارپن گزارا۔ ایک دن سنا کہ دوسری سہیلیوں کی طرح میں بھی بابل کا گھر چھوڑ کر پیا کا سنسار بسانےجارہی ہوں۔ہمارا خاندان بہت پرانے وچاروں والا ہےہم بنارسی پنڈت جو ٹھیرے۔جوڑا منڈپ میں بیٹھاتھا لیکن ابھی تک ہم ایک دوسرے کےلیۓ بالکل ہی انجان تھے۔ پہلے ہی پھیرے میں گھونگٹ کی اوٹ سے میں نےجھانک کر دیکھا کہ ایک دبلا پتلا سایہ میرے آگے لڑکھڑاتا ہوا چل رہا تھا۔کھانسی کی آواز متواتر میرے کانوں کےپردےسے ٹکراتی رہی اور میں دوسری سنسکاری لڑکیوں کی طرح اندھی بہری اور گونگی بنی ہوئی بغیر کسی بغاوت کے اس دمہ کے مریض کے سا تھ پھیرے لیتی رہی اور پھر اس کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی ۔بابو جی جہیزکی لعنت سے سستے چھوٹ گیۓ۔ ساس جی کا بڑی بہو گھر لانے کا ارمان پورا ہوگیا۔
سسرال پہنچنے پرضروری رسموں کی ادائیگی کے بعد تھکا ہارا دولھا خبر نہیں کہاں گیالیکن مجھے ساس جی کے کمرےمیں ایک کونے میں لگے ہوۓ بستر تک پہنچا دیا گیا۔سہاگ کے کمرے میں شاید سہاگ رات کے وہ سپنے دیکھنے کے لیۓجو کبھی حقیقت نہ بن سکے۔
شادی کو ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرے تھےکہ سہاگ کی ساری ظاہری نشانیاں بھی ایک ایک کرکے چھن گئیں ۔چوڑیاں چھن چھناکے ٹوٹ گئیں ۔مانگ کا سیندور پونچھ دیا گیا اور حصّہ میں کیا آیا سفید بناکنارے کی دھوتی، پوجا پاٹھ اور ساس جی کی مستقل سیوا۔ پتی کی ارتھی کے ساتھ سماج کےظالم رواجوں نے میرے سارے ارمان وحوصلے بھی چتا میں جھونک دۓ۔ گو میں اب اس سماج میں ہوں جس میں اپنے شوہر کی ارتھی کےساتھ اسکی جیتی جاگتی بیوی کو ستی تو نہیں کیا جاتا تھا مگر اس میں ابھی تک ایک زندہ لاش بناکے چھوڑ دیا جاتا تھا۔
رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں ، خوبصورت گہنےاور سرسراتی ریشمی ساریاں جب منجھلی ، چھوٹی بہو اور ساس جی پہن کر تیار ہوتی ہیں تو اپنا دل مچل اٹھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں ابھاگن ہوں۔ توکیا میں نے اپنابھاگیہ( قسمت ) اپنے ہاتھ سےبنایا ہے۔اگر اپنے ہی ہاتھوں انسان اپنی تقدیر گڈھ سکتا تو سنسار میں کوئ دین دکھی کیوں رہتا۔یہ ہمارا سماج کتناجاہل ہے کہ پہلے تو کسی اچّھےبھلے کو بنا اسکی جانکاری کے کسی ایسے کےپلّے باندھ دو جو اپنا ایک پیر چتا پر رکھ چکا ہواوروہ جب دوسراپیر رکھ کےسواہا ہوجاۓ تواس بیچاری پر سب مل کےبد قسمتی کا الزام لاد دو۔آج اکّیسویں صدی میں جبکہ انسان آسمان میں تھگلی لگا رہاہے ہم اپنےفالتو ریت رواجوں کےاندھے کنوؤں ہی میں پڑے ہوۓ ہیں۔
چھوٹے لالہ ( دیور ) کی شادی میں میں کس قدر دوڑ دوڑ کر سب کا ہاتھ بٹا رہی تھی مگر کتنے ہی شگن کے کاموں کی جگہ سےمجھے کسی نہ کسی بہانے ہٹا دیا جاتا۔
„شانتی بہو ابتک تو تمہیں اتنی سمجھ آجانی چاہیۓ تھی کہ تمہیں کس کام میں ہاتھ لگانا ہے اور کس میں نہیں؟” ساس کاکی کے یہ کہنے پر میں کس قدر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔شاید ان سے بھی یہی کہا گیا ہوگا۔ اگر زمانہ میں اندھ وشواس اسی طرح پاؤں پسارے رہاتو کتنے دلوں کو آۓ دن یوں ہی سداکچوکے لگاۓ جاتے رہینگے۔
بابوجی تو شاید اپنے کندھے کا جوا اتار کر مجھے بالکل ہی بھول گۓ۔اب شیلا ان کی سیوا میں لگی ہوگی۔وہ اس کے لیۓ بھی کوئ ایسامریل ٹٹّو کہیں سے پکڑ لائیں گے جو گرہستی کا بوجھ پڑتے ہی ڈھیر ہوجاۓیا کوئ اوباش شرابی کبابی ۔لیکن بیچارے وہ بھی کیا کریں ۔ آج کل سماج نے ہی شادی بیاہ کو شطرنج کا ایسا کھیل بنا دیا ہے کہ اگر لڑکی کے ماں باپ شاطر کھلاڑی نہ ہوۓ تو ہمیشہ مات کھاتے رہتے ہیں۔
شنکر کی یاد آج شام سے نہ جانے کیوں مسلسل آۓ جارہی ہے۔معلوم نہیں کہاں ہوگا کیسا ہوگا؟ کئ دنوں سے ادھر آیا بھی نہیں۔ پچھلےدنوں وہ بہت کھویا کھویا سا دکھا ئ دے رہا تھا ۔لیکن مجھے کیا؟میں کیوں اس کے بارے میں اتنا سب کچھ سو چنے لگی ہوں ؟ اس کے آنے کی راہ کیوں دیکھنےلگی ہوں ؟جب کئ دنوں تک نہیں دکھائ دیتا تو من اداس کیوں رہتا ہے؟سامنےآتا ہے تو دل کی دھڑکنیں کیوں تیز ہوجاتی ہیں ؟اس سے آنکھیں چار کرنے میں گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے؟نمستے اور ہوں ہاں سے آگے کچھ بولنے سے کتراتی کیوں ہوں ؟ میرے دل میں ضرور کوئ چور ہے۔ اس کے خیال ہی سےمن میں کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ایسااحساس تو کبھی کسی کے لیۓ نہیں ہوا تھا۔میرے دل کو اس سے محبّت تو نہیں ہو گئی ہے؟کہیں میں یہ کچھ پاپ تو نہیں کر رہی ہوں ؟کہیں یہ اپنےسورگ واسی(آنجہانی) پتی(شوہر)کے ساتھ میری غدّاری تو نہیں ؟ شاید۔ شاید مجھےایک پرپرش (پرائے مرد) کے بارےمیں زیادہ نہیں سوچنا چاہیۓ۔اس سے میرارشتہ ہی کیا ہے؟
صرف اتنا ہی نہ کہ وہ میری منجھلی دیورانی کا بھائ ہے اور بس۔
کیا وہ بھی میرے بارے میں ایسے ہی سوچتا ہوگا جیسے میں؟
لیکن جب میں نے اس کی آنکھوں میں کبھی جھانکا ہی نہیں تو کیسے معلوم ہو؟
نہ اس نے کبھی مجھسے کوئی بات کی اور نہ اس کےکسی برتاؤ سے ایسا ظاہر کیا۔ مگر میں نے بھی کب اس سے کچھ کہا۔ کہتا بھی کیسے میرے ساتھ ودھواپن( بیوگی ) کا لیبل بھی تو لگاہے۔میں اس سے اتنی بڑی ہمّت کی امّید بھی کیوں کروں؟
ضروری بھی تو نہیں کہ ادھر جو آگ لگی ہے ویسی ہی اودھر بھی ہو؟
لیکن۔۔؟لیکن۔۔۔۔۔؟
پچھلےمہینےجب میں دھوتی چڑھاۓ چوکے میں پونچھا لگارہی تھی اوروہ اچانک آگیا تھا تو فورا ٹھٹھک کر سوری کہتےہوۓ وہ واپس چلا گیا۔
„ دیدی یہ شانتی جی ہردم کچھ نہ کچھ کام ہی کرتی رہتی ہیں۔تم بھی تو کچھ کرلیا کرو نہ“۔منجھلی سے اسے کہتے سنا مجھے کتنا اچّھا لگا تھا۔
„ تو جاکے تم ہی ہاتھ بٹادیا کرو نہ انکا جب تمہیں اتنی ہمدردی ہے ان سے“مجھلی نے بھائ سے جل کے کہا تھا۔„ان کے پاس کام ہی کیا ہے؟میں تو دو دو بچّے پال رہی ہی ہوں۔“
اس بات پر ساس جی نے بھی ان کی ہاں میں ملائ تھی اور میں دل مسوس کر رہ گئ تھی۔ میرے سینے میں مامتا کس قدر تڑپی تھی۔مگر مجھے میرا سماج صرف پیٹ کی روٹی اور تن کا کپڑا ہی دےکرسنتشٹ(مطمئن) ہے۔لیکن کیا کبھی اپنوں نےبھی یہ سوچا کہ اس کے علاوہ جانوروں تک میں کچھ اور بھی اچّھائیں (خواہشیں ) ہوتی ہیں۔
ساس جی سو گئی ہیں۔ مجھے لائٹ بند کرنی پڑے گی ۔۔کوئ کتاب بھی نہیں پڑھ سکتی۔ابھی اتنی جلدی نیند بھی نہیں آنے کی۔ چلوں تھوڑی دیر آنگن میں ٹہلتی ہوں۔
ارےمنجھلی کے کمرے میں تو کافی بحث مباحثہ سا چل رہا ہےشنکر کی آوازیں بھی سنائ دے رہی ہیں ۔دیور جی ابھی آفس سے نہیں آۓ ہیں اس لیۓ شاید بھائ بہن دل کھول کر کسی بحث میں لگے ہوۓہیں۔لیکن شنکرکو تو میں نے کبھی بلند آواز میں بات کرتے بھی نہیں سنا تھا آج اسے کیا ہوگیا ہے۔
„ سوری دیدی ! تم نےبہت دیر کردی ۔ کتنے دنوں سےیہ وچار میرے دل و دماغ میں پل رہا تھا ۔صرف ہمدردی ہی نہیں بلکہ میں شانتی جی سے پیار کرنے لگا ہوں ۔ دربھاگیہ وش آپ کے پریوار( خاندان ) کے سنسکاروں کے ڈر سے اپنی زبان کھولنے کی ہمّت نہیں کر سکا ۔لیکن اب شانتی جی سے زیادہ کسی اور کو میری ضرورت ہےاور وہ ہےکل روڈ ایکسیڈنٹ میرےمارے جانے والے پیارےدوست وشال کی پتنی شیلا۔ڈ اکٹروں کاوچار ہے کہ اسے دماغی صدمے سے باہر لانے کے لۓمجھے اس کا وشال بننا پڑے گا۔
شانتی سکتے میں آگئی۔
اسے ایسا کہ ایسا لگا کہ جیسےاس کےدل کی راکھ میں جو چنگاری سلگ اٹھی تھی اس پر کسی نے ڈھیروں پانی انڈیل دیا ہو۔