سپنوں کا محل
ہفتہ بھر کی تھکن کے بعد میں دلھن کے ڈولےکے ساتھ جوں ہی گھرکے دروازےپر پہنچا تو میرے کچھ بے تکلف دوستوں کی ایک ٹولی نےمجھےگھیر لیا۔دروازہ پر کچھ رسمیں ہوئیں اور دلھن اندر پہنچادی گئی ۔ اندر جانے کے لئے میں نے بھی کئی بار ان کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ سب تو جونک کی طرح مجھے چپک گئے تھے۔
”امیں یار شوکت ! سیما کیسی لگیآنند نے رازداری کے انداز میں پوچھا۔ابھی میں نے اسے دیکھا ہی کہاں ہے‘‘ میں نے سادگی سے جواب دیااور جو پہلے اس کے ساتھ سیر سپاٹے بھرنے گئے تھے۔
’’ارے وہ تو بس تھوڑی دیرکے لئے ہی ملے تھے‘‘ میں اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے بولا۔
’’بڑے خوش قسمت ہو یار۔ ایک جھٹکے میں اتنا بڑا ہاتھ مارلیا۔ واہ !‘‘ علیم نے حسد سے کہا۔
سنتے ہیں کہ سیما بہت سلیقہ مند بھی ہے‘‘ ایک بزرگ قسم کے دوست نے گل افشانی کی
اور ہاں دوست تم نے شہلا کو بالکل ہی بھلا دیا۔‘‘ ایک قریبی دوست نے رازدارانہ انداز میں قریب آکے پوچھا ،
’’لیکن ایسی کوئی بات ہی کب تھی۔ ناحق آپ لوگوں نے ایک تماشہ کھڑا کر رکھا تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ بیچاری متوسط گھرانہ کی ایک سیدھی سادی شرمیلی لڑکی ہے اس کو آپ سب بلا وجہ ان سب چکروں میں پھنسارہےتھے۔‘‘
میں نے بھرپور وضاحت کرڈالی۔
’’تو حضور کو اس سستے مال کی جگہ موٹی مرغی چاہئے تھی۔ چلو بچو عیش کرو۔ ہاں باہر جاکر ہمیں بھی یاد رکھنا‘‘
’’یار ڈھونڈونہ اپنے لئے بھی کوئی جگاڑ‘‘
مارے درمیان ابھی یہ چھیڑ چھاڑ جاری ہی تھی کہ گھرسے بلاواآگیا اورمیں دل میں خیالات کی ایک وسیع دنیا اور جذبات کے بے پناہ طوفان سمیٹے کمرے میں داخل ہوا ۔ میں چاہتا تھا کہ سیما میرا استقبال ایسے میزبان کی طرح کرے جس کا دیر سے انتظار کیا جارہا ہو لیکن وہ خلاف توقع روایتی دلھنوں کے مانند گٹھری ہی بنی رہی۔ آخرش مجھے ہی سکوت توڑنا پڑا۔
’’سیما ،ذرا گھونگٹ اٹھاکے دیکھو۔ آج کی رات کتنی حسین ہے۔وہ دیکھو چاند بھی ہمارے ملن کی خوشی میں ہنس رہا ہے۔آج ہر چیز کتنی خوبصورت ہے۔ آج کی یہ رات ہماری ہے۔ اس کی یہ خوشیاں ہماری ہیں اور اس کا ایک ایک پل ہمارا ہے۔ سیما میں تم سے بول رہا ہوں ۔ کچھ تم بھی تو بولو۔‘‘
سیما کی اس مستقل خاموشی سے اب ایک موہوم سا خوف میرے من میں جاگ اٹھا تھا۔ میں ابھی اس کا گھونگٹ اٹھانے کے لئے آگے بڑھا ہی تھاکہ اسنے کھلکھلاتے ہوئے اچانک گھونگٹ پلٹ دیا
’’اب انسان بنی ہو‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا
’’اوہ، تو کیا ابھی تک میں آپ کو جانور دکھائی دے رہی تھی۔‘‘
’’ارے بھئی کس کمبخت نےمیری نئی نویلی دل کی رانی سیما میڈم کی شان میں یہ گستاخی کی۔‘‘
’’میری جانب سےاس گستاخ کی معافی کےفرمان جاری کردئےجائیں‘‘
اس نے بے تکلف ہوتے ہوئےکہآ۔ تھوڑی ہی دیرمیں وہ اتنی کھل گئی جیسےکہ بہت پرانی جان پہچان ہو۔ میری یہ خواہش ہرگز نہ تھی کہ میری بیوی الٹرا ماڈرن ہو۔میں تو بس اتنا چاہتا تھا کہ اس کے طورطریقےاتنے گنوارو نہ ہوں کہ جہاں ساتھ لے جا ؤں مجھے بھی اس کے ساتھ نکّو بننا پڑے۔‘‘
’’سیما!میرے دل کی ملکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنی سہاگ رات کچھ الگ ڈھنگ سے منائیں۔ میری پیدائش کے وقت ہی میری ماں اللہ کو پیاری ہوگئی تھیں ماں کی گود میں سر رکھ کر کہانی سننے کا مجھے کبھی موقع نہیں نصیب ہوا۔ معلوم نہیں کیوں میرا دل چاہتا ہے تمہارے سامنے چھوٹا بچہ بن جاؤں اور تمہارے زانو پر سررکھ کرمستقل کہانی سنتا رہوں یہاں تک کہ سویرا ہوجائے۔‘‘
’’لیکن وہ تو پریوں کی کہا نیاں ہوتی ہیں ۔وہ تومجھے آتی نہیں‘‘
’’چلو کوئی بھی چل جائے گی۔‘‘
میں نے درخواست کی
’’تو سنئے،ایک تھی چڑیا ۔گھونسلے سے اڑی ۔ایک رائی کا دانہ لائ۔ پھر اڑی پھرایک دانہ لائی،پھر اڑی، پھرایک دانہ لائی۔۔۔‘‘ اس سےپہلے کہ وہ آگے کچھ بولتی میں نے اس کےمنھ پر ہاتھ رکھ دیا۔میری اس حرکت پر وہ سکپکا سی گئی۔
’’میں سنجیدہ ہوں سیما۔ چلو جانے دو۔ معاف کرنا مجھے اپنی نئی نویلی دلھن سے یہ بے تکی فرمائش نہیں کرنی چاہیۓ تھی۔‘‘
’’چلیۓ تو میں بھی واقعی سنجیدہ ہوتی ہوں اور کہانی بھی سنجیدہ ہی سناؤنگی بس وہ مختصر ہوگی‘‘
’’ آج سے قریب چوبیس سال پہلے ایک متوسط گھرانے میں ایک پیاری سی گڑیا نے جنم لیاتھا ۔ گھر کی پہلی اولاد تھی ہاتھوں ہاتھ لی گئی ماں باپ کے علاوہ پورے خاندان کے آنکھوں کا تارا تھی ۔پھر یکے بعد دیگرے ہر ڈیڑھ دوسال کے بعد آفات سماوی کی طرح لگاتار چار چار بیٹیاں نازل ہوگئيں تورحمت کے بجائے زحمت میں شمار ہو گئیں۔
لڑکیاں بڑھتی گئیں ، زندگی آگے بڑھتی گئی،خرچ بڑھتا گیااور ساتھ ساتھ مہنگائی بھی۔بڑی لڑکی جس کا نام فرض کیجيۓ شمسیہ تھا ابھی صرف گیارھویں جماعت کی طالبہ تھی اور اسنے ابھی اپنی زندگی کی سولہویں سیڑھی پر ہی پیر رکھا تھا کہ آۓدن اس کے لیۓ نئےنئے خریدار آنے شروع ہو گۓ تھے۔ایک دن جب وہ اسکول سے واپس آئی اور یونیفارم میں ہی بے خبری کے عالم میں ہاتھوں میں رپورٹ کارڈ لئےبیٹھک کا رخ کیا تووہاں ایک اجنبی کو ابو سے بات کرتے پایا۔ اس نے اسے سر سے پاؤں تک گھورا۔وہ الٹے پاؤں یہ سوچتے ہويۓ واپس آگئی کہ توبہ ابّو بھی۔۔۔۔کیسےکیسےبد ہیبت لوگوں کو گھر پکڑ لا تے ہیں ۔ سرخ آنکھیں، موٹے موٹے ہونٹ چپٹی پھیلی ہوئ ناک،سیاہ رنگت، کہیں ڈاکو ہوا تو۔۔۔۔
اور پھر ۔۔۔۔معلوم ہوا کہ وہ اسی کے معصوم وجود پر ڈاکہ ڈالنے آیا تھا۔
شام کو لحاف میں چھپ کر وہ خوب روئئی اور رات میں اس نے ڈنر کا بھی با ئیکاٹ کیا۔آخر کار اس کے اس خاموش احتجاج کو کامیابی ملی۔ دو تین سال تو خاموشی رہی اس کے بعد اس کی حیثیت بالکل بکاؤ مال کی سی ہو گئ۔ ہر مہینہ ہی کوئ نہ کوئ خریدارآٹپکتا اسےسجا بنا کر پیش کیا جاتا مگر زیا دہ تر خریدار اپنی بھوکی تجوریوں کی بھوک مٹانے کی غرض سے آتے اورخالی ہاتھ واپس چلے جاتے۔یہ عجیب سودے بازی ہےجس میں خریدارکو ہی مال کے ساتھ قیمت بھی دی جاتی ہے۔سودا اکثر مشکل سے پٹتا ہے اور اگر کبھی خریدارکو قیمت سے اطمنان نہ ہوا تووہ مال کو جلا دینے اور ضائع کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتا۔ شمسیہ کے والدین اب تو بیٹیوں کو دیکھ دیکھ کڑھنے لگے تھے۔اس پہلے رشتے کے انکار کی بات کو لیکر تو اکثر اس سے چڑ چڑاہٹ کا بھی مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ اب وہ واقعی خود کوماں باپ کا مجرم سمجھنے لگی تھی ۔ کئی بار تواس نےیہ بھی سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنے اس غیر ضروری وجود کو ختم ہی کرلے۔۔۔،،
’’سیما یہ کسی کا افسانہ ہے؟یا تمہاری کسی قریبی سہیلی کی داستان ہے؟‘‘
میں درمیان میں بول پڑا۔
’’یہ واقعی ایک خاص لڑکی کی زندگی کی کہانی ہے لیکن نام سےکیا ہوتاہے۔آج ہمارےسماج کی ہرلڑکی شمسیہ ہے۔ نچلہ طبقہ جسے اونچے لوگ چھونے سے کتراتے تھے ان کےدن پھر گئے لیکن ہمارے معاشرےمیں عورت کی تقدیر جوں کی توں وہی پہلے جیسی ہی رہ گئی ۔وہ کتنی ڈگریاں حاصل کر لے ، اعلی عہدوں پر فائز ہو جاۓ لیکن اس کی حیثیت وہی دو کوڑی کی رہیگی۔ جب تک یہ جہیز کی لعنت ختم نہ ہوگی ہر بیٹی سماج کی کمزوری اور ماں باپ کے کندھے کا جوا رہیگی۔
شمسیہ چوبیس سال کی ہو رہی تھی کہ ایک دن اسکا ایک ایسا خریدار آیاجو واقعی وسیع ذہنیت کا مالک تھا۔ جس کے دل میں مال ودولت کی کو ئی ہوس نہیں تھی ۔ وہ ایک سچّا ، شریف، اورنیک صفت انسان تھا۔ دونوں نےایک دوسرے کو نظروں نظروں میں پسند کیا اور سا دگی سےشادی انجام پا گئی۔ آج اس کی سہاگ رات ہے ۔آج وہ بےانتہا خوش ہے۔ یہ رہی آپ کی کہانی ۔ کہیۓ کیسی لگی؟
’’یہ تمہاری شمسیہ میری سیما تو نہیں۔ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
’’میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ سبھی خوبیوں کے علاوہ آپ عقلمند بھی ہیں۔“
اب مجھےکاٹو تو لہو نہیں بدن میں ۔میں اپنی نظروں خودگرچکا تھا۔ وہ بیچاری جو مجھےاس وقت زمین سے اٹھاکرآسمان پر بٹھارہی ہے اسےکیا معلوم کہ میں دوسرےجہیز کے لالچی کتّوں سےکہیں زیادہ گرا ہوا ہوں ۔
میں فورا” اٹھا،الماری سےایک مہر بند لفافہ نکالا اور اسے سیما کےہاتھوں پر رکھ دیا۔
’’یہ کیا ہے؟۔ اس نے شرماتے ہوۓ پوچھا ۔
وہ شاید اسے اپنی رونمائ کا تحفہ سمجھ کر فورا کھولنے جارہی تھی۔
’’نہ، نہ ۔یہ تمہارے ابو جی کے لئے ہے۔میں نے اس کی کلائی پکڑ تے ہوئے کہا۔ اس لفافہ میں اس کثیر رقم کا چک تھاجو میرے سسر نے اپنا رہائشی گھر گروی رکھ کر فراہم کیا تھا ۔اسی سے میں اپنے سپنوں کا محل تعمیر کرنے پردیس جانے والا تھا۔