شعور چاہیے اظہار و آگہی کے لئے

شعور چاہیے اظہار و آگہی کے لئے
خوشی ہے غم کے لئے اور غم خوشی کے لئے


ہزار جلوے نظر کے لئے ہیں عالم میں
نگاہ شوق ہے لیکن کسی کسی کے لئے


ذرا ہواؤں کے رخ پر بھی اک نظر ڈالیں
چراغ ڈھونڈ رہے ہیں جو روشنی کے لئے


کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا گزرتی ہے
ہم اپنے آپ سے جاتے رہے کسی کے لئے


یہ راز پوچھے تو پروانے سے کوئی پوچھے
کہ بے سبب کوئی مرتا نہیں کسی کے لئے


ریاض عشق میں ایسی بھی اک بہار آئی
نگاہ شوق نے بوسے کلی کلی کے لئے


کسے خبر تھی کہ خود روشنی کو ترسے گا
چراغ عشق جلایا تھا روشنی کے لئے


اسی کا نام فرشتوں کے نام سے چمکا
جو آدمی ہوا قربان دوستی کے لئے


ہزار قدرت عزم و عمل سہی لیکن
خلا کا خوف بھی لازم ہے آدمی کے لئے


دوائے درد اگر آپ سے نہیں ہوتی
دعائے مرگ ہی کر جائیے رشیؔ کے لئے