شوق اظہار ہے کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں

شوق اظہار ہے کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
اپنے وعدے سے مکرنا بھی نہیں چاہتے ہیں


کوئی تو ہے مجھے جینے کی دعا دیتا ہے
ہم ترے عشق میں مرنا بھی نہیں چاہتے ہیں


تجھ سے ملنے کی تمنا بھی بہت ہے دل میں
ترے کوچے سے گزرنا بھی نہیں چاہتے ہیں


دل یہ کہتا ہے سمٹ جائیں تری بانہوں میں
بوئے گل بن کے بکھرنا بھی نہیں چاہتے ہیں


جھانکتے ہیں مری آنکھوں میں بچا کر نظریں
گو بظاہر وہ سنورنا بھی نہیں چاہتے ہیں


دے کے آواز کوئی روک رہا کب سے
اور ہم ہیں کہ ٹھہرنا بھی نہیں چاہتے ہیں


لوگ ساحل پہ کھڑے ڈھونڈھ رہے ہیں موتی
بہتے پانی میں اترنا بھی نہیں چاہتے ہیں