شناخت مٹ گئی چہرے پہ گرد اتنی تھی
شناخت مٹ گئی چہرے پہ گرد اتنی تھی
ہماری زندگی صحرا نورد اتنی تھی
تمام عمر اسے سینچتے رہے لیکن
گلاب دے نہ سکی شاخ زرد اتنی تھی
گرے نہ اشک کبھی حادثوں کے دامن پر
ہماری آنکھ شناسائے درد اتنی تھی
تری پکار کا چہرہ دکھائی دے نہ سکا
مرے قریب صداؤں کی گرد اتنی تھی
تلاش زیست میں دل جیسی چیز چھوٹ گئی
حکایت دل و جاں فرد فرد اتنی تھی
جھلستی دھوپ کا اس پر گماں گزرتا تھا
بچھی تھی راہ میں جو چھانو زرد اتنی تھی
پگھل سکی نہ کبھی برف اکیلے پن کی خمارؔ
وہ شعلہ رو بھی طبیعت کی سرد اتنی تھی